ایف بی آر نے سیلز ٹیکس فراڈ میں گرفتاریوں کےخلاف حفاظتی اقدامات متعارف کرا دیے
بزنس کمیونٹی کی جانب سے سیلز ٹیکس ایکٹ کی دفعات 37A اور 37B کے تحت ٹیکس حکام کو دیے گئے وسیع اختیارات پر بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیش نظر، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس فراڈ کے مقدمات میں گرفتاریوں کو منظم کرنے کے لیے ایک ضابطہ جاتی فریم ورک متعارف کرایا ہے تاکہ ان اختیارات کے غلط استعمال کو روکا جا سکے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ اقدام 19 جولائی کو تاجروں کی ملک گیر ہڑتال اور وزیراعظم کے مشیر ہارون اختر کے ساتھ ناکام مذاکرات کے بعد سامنے آیا، احتجاج کا سبب ٹیکس حکام کی جانب سے من مانے انداز میں گرفتاریوں اور ہراسانی کا خدشہ تھا۔
اس کے جواب میں سرفہرست کاروباری رہنماؤں نے چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے ملاقات کی، جنہوں نے یقین دلایا کہ جائز کاروباری سرگرمیوں میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔
سیلز ٹیکس سرکلر نمبر 2 میں ٹیکس فراڈ کے مقدمات سے متعلق انکوائری، تفتیش اور گرفتاریوں کے لیے ایف بی آر کے تحت ایک منظم طریقہ کار بیان کیا گیا ہے، اس فریم ورک میں مختلف سطحوں کی منظوریوں کی شرط رکھی گئی ہے اور قابلِ تعزیر جرائم کی واضح تعریف کی گئی ہے تاکہ افسران کے صوابدیدی اختیارات کو محدود کیا جا سکے۔
سرکلر کے مطابق ان لینڈ ریونیو افسر صرف کمشنر کی تحریری منظوری کے بعد انکوائری شروع کر سکتا ہے اور یہ منظوری ٹھوس شواہد کی بنیاد پر دی جائے گی جو ٹیکس فراڈ یا کسی قابلِ تعزیر جرم کی نشاندہی کریں۔
جب انکوائری مکمل ہو جائے (اور ملزم کو صفائی کا موقع دیا جا چکا ہو) تو تفصیلی رپورٹ کمشنر کو پیش کی جائے گی، جو فیصلہ کرے گا کہ کیس بند کیا جائے یا رسمی تفتیش کی اجازت دی جائے۔
تفتیش کی منظوری کی صورت میں، اسے 3 ماہ کے اندر مکمل کرنا لازمی ہوگا اور نتائج اسپیشل جج کو پیش کیے جائیں گے۔
دفعہ 37A کی ذیلی دفعہ (8) کے تحت گرفتاری کا وارنٹ صرف اس صورت میں جاری کیا جائے گا جب تین رکنی ایف بی آر کمیٹی (جو چیئرمین کی طرف سے نامزد ہو) کیس کا جائزہ لے کر منظوری دے، یہ طریقہ کار صرف ایسے کیسز پر لاگو ہوتا ہے جن میں مبینہ ٹیکس فراڈ کی مالیت 5 کروڑ روپے سے زائد ہو۔
غلط استعمال کو روکنے کے لیے، ایف بی آر نے ٹیکس فراڈ کی تعریف واضح کی ہے، جس میں جعلی، جھوٹے یا فرضی دستاویزات (جیسے ریٹرنز، اسٹیٹمنٹس، اینکسیچرز اور انوائسز ) کا استعمال یا تخلیق شامل ہے۔
مزید یہ کہ بغیر کسی حقیقی فراہمی کے انوائس جاری کرنا، شواہد یا ریکارڈ کو تباہ کرنا، اور ٹیکس سسٹم کو چالاکی سے چلاتے ہوئے فرضی ان پٹس یا جعلی اندراجات کرنا بھی جرم قرار دیے گئے ہیں۔
فریم ورک میں دفعہ 73 کے غلط استعمال کو بھی شامل کیا گیا ہے، خاص طور پر ایسے منصوبوں میں جہاں ادائیگیاں سپلائر اکاؤنٹس یا منسلک اداروں کے ذریعے واپس ٹیکس گزار کو بھیجی جاتی ہیں، ایسے تمام کیسز جن میں ٹیکس فراڈ کی مالیت 5 کروڑ روپے سے زائد ہو، اس سخت انفورسمنٹ نظام کے تحت آئیں گے۔
گرفتاری کے لیے بعض شرائط بھی طے کی گئی ہیں، جیسے ملزم کے شواہد کو ضائع کرنے، مفرور ہونے، یا 3 نوٹسز کے باوجود تعاون نہ کرنے کا خطرہ ہو۔ مزید برآں، کمشنر کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر ملزم واجب الادا ٹیکس، ڈیفالٹ سرچارج اور جرمانے ادا کرے تو اسے قانونی کارروائی سے بچاتے ہوئے کیس کو کمپاؤنڈ کیا جا سکتا ہے۔
مالی لین دین پر پابندیاں
علاوہ ازیں، فنانس ایکٹ 2025 کے تحت سیکشن 114C متعارف کرایا گیا ہے، جو ’غیر اہل‘ ٹیکس گزاروں کے لیے بڑے مالی لین دین پر پابندی عائد کرتا ہے، یہ درجہ بندی کسی فرد کی مالی حیثیت (جیسا کہ تازہ ترین ویلتھ اسٹیٹمنٹ یا سرمایہ کاری و اخراجات کی تفصیلات میں ظاہر کی گئی ہو) کی بنیاد پر کی جائے گی۔
اہلیت کے لیے، فرد کے پاس نقد اور نقد نما اثاثے کل وسائل کا کم از کم 130 فیصد ہونے چاہئیں، ان میں ملکی یا غیر ملکی کرنسی، سونے کی مارکیٹ ویلیو، اسٹاکس اور بانڈز کی قابلِ فروخت قیمت، واجب الادا رقم، یا دیگر اثاثے شامل ہیں، جو لین دین پہلے سے ظاہر شدہ سرمایہ جاتی اثاثوں سے ہو، وہ بھی معاہدے میں درج قدر تک شمار ہوں گے۔
یہ اہلیت ٹیکس گزار کے قریبی خاندان (والدین، شریک حیات، اور زیر کفالت بچوں) تک بھی وسعت رکھتی ہے۔
’غیر اہل‘ افراد پر 70 لاکھ روپے سے زائد قیمت والی گاڑی کی خریداری، 10 کروڑ روپے سے زائد مالیت کی جائیداد کی خرید و فروخت، 5 کروڑ روپے سے زائد مالیت کی سیکیورٹیز، میوچل فنڈز یا اسی طرح کی سرمایہ کاری، جب تک یہ سرمایہ کاری نئی ہو اور پچھلے اثاثوں کی فروخت یا منافع سے نہ کی گئی ہو، 10 کروڑ روپے سے زائد کی نقد رقم بینک اکاؤنٹ سے نکالنے پر پابندی ہوگی۔
یہ پابندیاں نان-ریذیڈنٹ افراد یا پبلک کمپنیوں پر (سوائے بھاری نقد نکالنے کے معاملات کے) لاگو نہیں ہوں گی۔
یہ نئے اقدامات حکومت کی دوہری حکمتِ عملی کو ظاہر کرتے ہیں، جس کا مقصد ایک طرف ٹیکس فراڈ سے نمٹنا ہے اور دوسری جانب دستاویزی معیشت کو فروغ دینا ہے، تاکہ جائز کاروباری سرگرمیاں متاثر نہ ہوں، خاص طور پر موجودہ سیاسی اور معاشی دباؤ کے تناظر میں معیشت متاثر نہ ہو۔













لائیو ٹی وی