غیر ٹیکس آمدن میں بڑا اضافہ، ٹیکس آمدنی کی شرح 21 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی
مالی سال 2025 میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح میں ریکارڈ 3.2 پوائنٹس اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد یہ شرح 15.7 فیصد تک جا پہنچی جو گزشتہ دو دہائیوں میں سب سے بلند سطح ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ ریکارڈ آمدنی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف پروگرام کی سخت شرائط کے تحت عائد کیے گئے بھاری ٹیکسوں اور نان ٹیکس ریونیو (این ٹی آرز) سے حاصل ہونے والی آخری لمحات کی غیر معمولی آمدنی کی بدولت ممکن ہوئی۔

مالی سال 25-2024 میں نان ٹیکس ریونیو میں 68 فیصد اضافہ ہوا، جب کہ ٹیکس ریونیو میں صرف 26 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت کی توجہ ٹیکس اصلاحات کے بجائے مجموعی ریونیو حاصل کرنے پر مرکوز رہی۔
وزارتِ خزانہ کی جانب سے پیر کے روز جاری کیے گئے مالیاتی اعداد و شمار کے مطابق ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح گزشتہ 21 سال کی بلند ترین سطح 15.7 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔
اس سے قبل مالی سال 04-2003 میں یہ شرح 18 فیصد تک پہنچی تھی، اس کے بعد یہ شرح 10 سے 15 فیصد کے درمیان گھومتی رہی، سوائے مالی سال 17-2016 اور 18-2017 میں بالترتیب 15.5 اور 15.2 فیصد کے اور مالی سال 20-2019 میں 15 فیصد، یہ تمام ادوار آئی ایم ایف کی نگرانی میں گزرے۔
گزشتہ مالی سال میں 3.2 پوائنٹس کا اضافہ، ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح میں کسی ایک سال میں ہونے والا سب سے زیادہ اضافہ ہے، اس سے قبل مالی سال 2020 میں 2.3 فیصد اضافہ ریکارڈ پر تھا جب حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت بھاری ٹیکس عائد کیے تھے۔
نان ٹیکس ریونیو میں ریکارڈ اضافہ
مالی سال 2025 میں نان ٹیکس ریونیو 52 کھرب 70 ارب روپے رہا، جو جی ڈی پی کا 4.6 فیصد بنتا ہے، جو گزشتہ 16 سال کی بلند ترین سطح ہے، اس میں اسٹیٹ بینک کے منافع، عوامی اداروں سے سود، پاسپورٹ فیس، تیل و گیس رائلٹی، گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی)، پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) وغیرہ شامل ہیں۔
یہ آمدنی بجٹ میں مقرر کردہ 48 کھرب 40 ارب روپے کے ہدف سے بھی تجاوز کر گئی، وزارت خزانہ کے مطابق نان ٹیکس آمدنی میں 68 فیصد اضافہ زیادہ تر اسٹیٹ بینک کے منافع اور پیٹرولیم لیوی کی زیادہ وصولی کی وجہ سے ہوا۔
بجٹ 2026 میں پیٹرولیم لیوی کو 11 کھرب 60 ارب روپے بتایا گیا تھا، لیکن اپ ڈیٹ شدہ ڈیٹا کے مطابق یہ رقم بڑھ کر 12 کھرب 20 ارب روپے ہو گئی، یعنی تقریباً 60 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
مزید 108 ارب روپے کا فائدہ پبلک سیکٹر اداروں سے سود کی وصولی کی صورت میں ہوا، جو بجٹ میں 150 ارب روپے ظاہر کی گئی تھی لیکن اصل میں 258 ارب روپے رہی۔
ان غیر متوقع آمدنیوں کے باعث مالی خسارہ کم ہو کر مالی سال 2025 میں 5.4 فیصد رہا، جو مالی سال 2024 کے 6.8 فیصد کے مقابلے میں 1.4 فیصد کم اور گزشتہ 9 سال میں سب سے کم ہے۔
پرائمری فِسکل سرپلس (سودی ادائیگیوں کے بغیر آمدنی اور اخراجات کا فرق) 2.4 فیصد یا 61 کھرب 70 ارب روپے رہا، جو اس اشاریے کے آغاز سے اب تک سب سے زیادہ ہے۔
وزارت خزانہ نے ایف بی آر کی حتمی محصولات 117 کھرب 40 ارب روپے ظاہر کیں، جو بجٹ 2026 میں دیے گئے 119 کھرب کے تخمینے اور اصل ہدف 129 کھرب 70 ارب روپے سے کم ہیں۔
یہ ٹیکس وصولی میں 12 کھرب 30 ارب روپے کی کمی کو ظاہر کرتا ہے، جو ملکی تاریخ کا سب سے بڑا ٹیکس خسارہ ہے۔
کل اخراجات مالی سال 2021 کے بعد سب سے زیادہ 241 کھر 60 ارب روپے (یا جی ڈی پی کا 21.1 فیصد) رہے۔
مالی سال 2025 میں سود کی کل ادائیگیاں اور قرضوں کی خدمت 88 کھرب 90 ارب روپے رہیں، جن میں سے 79 کھرب 80 روپے اندرونی اور 890 ارب روپے بیرونی قرضوں کی واپسی پر خرچ ہوئے۔
کل بنیادی جاری اخراجات 126 کھرب 40 ارب روپے رہے، جن میں وفاقی حصہ 68 کھرب 10 ارب اور صوبائی حکومتوں کا حصہ 58 کھرب 30 ارب روپے رہا۔
مالی سال 2025 میں ترقیاتی اخراجات اور نیٹ قرضے 29 کھرب 70 ارب روپے رہے، جن میں وفاقی پی ایس ڈی پی کے لیے 786 ارب اور صوبائی ترقیاتی اخراجات 21 کھرب 20 ارب روپے شامل ہیں۔
کل شماریاتی فرق منفی 329 ارب روپے رہا، جس میں وفاقی حکومت کا حصہ 193 ارب روپے اور صوبائی حکومتوں کا حصہ 136 ارب روپے رہا۔













لائیو ٹی وی