• KHI: Partly Cloudy 24.3°C
  • LHR: Partly Cloudy 18.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 15°C
  • KHI: Partly Cloudy 24.3°C
  • LHR: Partly Cloudy 18.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 15°C

فلسطینی بھوکے مر رہے ہیں اور ہم خاموش ہیں، ذوالفقار جونیئر پاکستان کی بے حسی پر افسردہ

شائع August 6, 2025
— فائل فوٹو: فرح ناز زاہدہ
— فائل فوٹو: فرح ناز زاہدہ

فنکار اور سماجی کارکن ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے ایک پُرجوش اور جذباتی ویڈیو پیغام میں فلسطینی عوام کے لیے پاکستان کی طرف سے عملی مدد کی کمی پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

اپنے پیغام میں ذوالفقار بھٹو جونیئر نے ریاستی رویے کو ’مدھم ردعمل‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عوام بھی فلسطینیوں کی اذیت سے بے حس ہو چکے ہیں، انہوں نے کہا کہ ’فلسطین میں لوگ بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں، یہ قحط قدرتی نہیں، انسانوں کا پیدا کردہ ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اُن لوگوں کو دیکھ رہے ہیں جو پہلے صحت مند تھے، باڈی بلڈرز تھے، جو موٹے ہوتے تھے، خوش باش تھے، اب وہ سب ایسے لگتے ہیں جیسے زندہ لاشیں ہوں، اُن کی ہڈیاں نمایاں ہو چکی ہیں‘۔

انہوں نے بتایا کہ وہ ٹک ٹاک پر محصور فلسطینیوں کی طرف سے شیئر کردہ مناظر مسلسل دیکھ رہے ہیں، اور یہ مناظر اتنے دردناک اور بے ساختہ ہیں کہ ان سے نظریں ہٹانا ممکن نہیں۔

اگرچہ ذوالفقار بھٹو جونیئر نے فلسطین سے متعلق پاکستان کے چند سرکاری بیانات کو تسلیم کیا، لیکن انہوں نے مؤثر عملی اقدامات کی عدم موجودگی پر افسوس کا اظہار کیا، اُن کا کہنا تھا کہ ’چند بیانات کے سوا پاکستان نے فلسطینیوں کے لیے کوئی ٹھوس مدد فراہم نہیں کی‘۔

انہوں نے غزہ کی حمایت میں کیے گئے حالیہ مظاہرے کی کم حاضری کا بھی ذکر کیا اور شکوہ کیا کہ ’نہ کوئی مذہبی تنظیم آئی، نہ کوئی سماجی تنظیم، لوگ یہاں اُکتا چکے ہیں، تھک چکے ہیں‘۔

بھٹو نے کہا کہ ’جو کچھ فلسطین میں ہو رہا ہے، اگر وہی پاکستان میں ہو، تو کیا ہم اسی طرح خاموش رہیں گے؟ ہمیں ہر حال میں سامنے آنا چاہیے جیسے یہ ہمارے ساتھ ہو رہا ہو‘۔

انہوں نے اس بات پر بھی سوال اٹھایا کہ پاکستانی فلسطین کے حق میں اپنی زبان کیوں نہیں بولتے؟ سارے نعرے انگریزی یا عربی میں ہوتے ہیں، اردو میں بہت کم ہیں۔

ذوالفقار بھٹو جونیئر کے نزدیک یہ لسانی بے ربطی ایک گہری فکری و سیاسی خاموشی کی علامت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’مسلم دنیا کے کئی ممالک جیسے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، اور بحرین نے فلسطین کو چھوڑ دیا، اور جنہیں ہم کافر کہتے ہیں، وہ فلسطین کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں، ’ریور ٹو دی سی‘ کا نعرہ اُن کی زبان میں ہے، تو ہم اپنی زبان میں کیوں نہیں بولتے؟ کیونکہ ہماری سرکار صہیونی ریاست کو تسلیم کرنا چاہتی ہے‘۔

جونیئر بھٹو کا پیغام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ میں انسانی بحران ناقابلِ تصور حد تک شدت اختیار کر چکا ہے، 7 اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں 61 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں ہزاروں بچے بھی شامل ہیں، جو زندہ ہیں، اُن کے لیے بھی بنیادی سطح پر زندہ رہنا دن بہ دن ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔

غزہ میں بطور رضاکار ایمرجنسی فزیشن خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر جیمز اسمتھ نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’بھوک ہمیشہ ایک انسان کا دوسرے انسان پر ڈھایا گیا ظلم ہوتا ہے، یہ جان بوجھ کر طویل عرصے تک جاری رکھا جاتا ہے تاکہ اذیت کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جا سکے‘۔

غزہ میں خوراک کی قلت اب صرف کمی نہیں، بلکہ مکمل عدم دستیابی کی صورت اختیار کر چکی ہے، اسرائیلی افواج کی جانب سے امداد کی رسائی روکنے اور تقسیم کے مراکز کو نشانہ بنانے کے باعث بھوک کو جنگی ہتھیار بنا دیا گیا ہے، مقامی باشندوں نے الجزیرہ کو بتایا ہے کہ اب خریدنے کے لیے بھی کوئی خوراک باقی نہیں بچی۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، سفیر عاصم افتخار احمد نے حال ہی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کی ’ظالمانہ اور غیرقانونی جنگ‘ کو روکے، اُنہوں نے کہا کہ ’یہ اقدامات نہ صرف اخلاقی طور پر ناقابلِ دفاع ہیں بلکہ بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزیاں بھی ہیں‘۔

تاہم، ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کا کہنا ہے کہ دعووں اور عملی اقدامات کے درمیان نمایاں خلا ہے، اور وہ پاکستانیوں کو یاد دلا رہے ہیں کہ یکجہتی صرف سوشل میڈیا پر غصے یا روایتی نعروں سے نہیں ہوتی۔

جب غزہ پر محاصرہ شدت اختیار کر رہا ہے، عالمی برادری اخلاقی طور پر مفلوج دکھائی دیتی ہے، اور ٹرمپ کہتے ہیں کہ یہ اسرائیل پر ہے کہ وہ پورے غزہ پر قبضہ کرے یا نہیں، ایسے میں بھٹو یاد دلاتے ہیں کہ خاموشی، چاہے وہ ادارہ جاتی ہو یا ثقافتی، ایک انتخاب ہے اور قحط، بے دخلی اور موت کے سامنے خاموشی دراصل شریکِ جرم ہونے کے مترادف ہے۔

کارٹون

کارٹون : 18 دسمبر 2025
کارٹون : 17 دسمبر 2025