’ٹرمپ کا سرخ قالین بچھانا پیوٹن کی بڑی جیت تھی‘
اگر غزہ میں جاری نسل کشی روزانہ اس یاددہانی کا کام نہیں کرتی کہ مغربی سیاست میں کس حد تک اصولوں کا فقدان ہے تو گزشتہ ہفتے الاسکا میں ہونے والی روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور ان کے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات کے براہ راست نشر ہونے والے مناظر سے یہ بات مزید واضح ہوگئی۔
صدر ٹرمپ کھلے عام خود کو امن کے نوبیل انعام کا مستحق ٹھہراتے ہیں۔ ایک امن ساز کے طور پر دیکھے جانے کے لیے کی جانے والی اپنی جرأت مندانہ کوشش میں نہ صرف وہ روسی صدر سے ملے جنہیں 2022ء میں یوکرین پر حملے کی وجہ سے مغربی دنیا نظرانداز کررہی تھی، بلکہ انہوں نے اپنے مہمان کو عوام اور میڈیا کے سامنے تشخص بہتر بنانے کا موقع بھی دیا۔
دونوں رہنما چند منٹ کے فرق سے اینکریج کے قریب ایک ایئربیس پر پہنچے اور اپنے اپنے ہوائی جہاز سے اتر کر سرخ قالین پر چلتے ہوئے ایک دوسرے سے ملاقات کی۔ گمان ہوا کہ یہ منظر انتہائی احتیاط سے منصوبہ بند کیا گیا ہے جبکہ یہ میزبان کے بجائے مہمان کی جانب سے زیادہ ڈیزائن کردہ لگا۔
جب ڈونلڈ ٹرمپ، پیوٹن کی جانب سے آخری چند قدم اٹھانے کا انتظار کررہے تھے تو انہوں نے روسی رہنما کے لیے تالیاں بجائیں۔ پھر دونوں کی ملاقات ہوئی اور انہوں نے مسکراتے ہوئے مصافحہ کیا جبکہ ایک دوسرے کی دوستانہ انداز میں حتیٰ کہ پیار سے پیٹھ تھپتھپائی۔ یہ واضح نہیں تھا کہ امریکی ٹی وی چینلز کیا کہہ رہے تھے لیکن ایسا لگا کہ بی بی سی کو لائیو کوریج سنبھالنے میں مشکل پیش آئی۔
بی بی سی شمالی امریکا کے نامہ نگار نے رن وے پر ایف-35 اسٹیلتھ جنگی طیاروں کی موجودگی کو طاقت کے مظاہرے کے طور پر لیا۔ بی 2 اسٹیلتھ بمبار طیارے اور 4 ایف-35 طیاروں کے فلائنگ پاسٹ کو بھی اسی زمرے میں لیا گیا (خاص طور پر جون میں ایران کی جوہری تنصیبات پر بی 2 طیاروں نے ہی بنکر بسٹر بم گرائے تھے)۔
ایک غیرجانبدار مبصر کے نزدیک پیوٹن اس تماشے سے خوفزدہ ہونے کے بجائے متاثر نظر آئے۔ شاید انہوں نے فلائی پاسٹ سمیت پورا مظاہرہ اور ریڈ کارپٹ کے ساتھ کھڑے فوجیوں کی رائفل سے رسمی سلامی کو امریکی فوج کی جانب سے دھمکانے کے بجائے اپنی تعظیم کے طور پر لیا۔
روسی صدر پُراعتماد تھے کہ ان کا خیرمقدم کیا جائے گا اور دنیا کی طاقتور قوم کے صدر انہیں قبول کریں گے جو اس سے ظاہر ہوا کہ اپنے پروٹوکول اور سیکیورٹی تحفظات کو ایک طرف کرتے ہوئے انہوں نے ٹرمپ کی لیموزین میں سفر کیا جبکہ ان کی اپنی لیموزین جو روس سے وہاں پہنچائی گئی تھی، پیچھے چلتی نظر آئی۔
عجیب بات ہے کہ بی بی سی ٹی وی پر کسی نے کہا کہ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ آیا پیوٹن انگریزی بول سکتے ہیں یا سمجھ سکتے ہیں جبکہ روسی صدر تو مسلسل ٹرمپ کے ساتھ بات چیت کرتے نظر آئے اور انہوں نے بعد میں میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے ٹرمپ سے مل کر ’گڈ آفٹر نون پڑوسی، آپ سے مل کر اچھا لگا‘ کہا تھا۔ الاسکا میں صرف آبیرنگ آبنائے روس اور امریکا کو ایک دوسرے سے الگ کرتا ہے۔
جب گاڑیوں کا قافلہ ہوائی اڈے سے روانہ ہوا تو ولادیمیر پیوٹن مسکراتے اور کیمروں میں ہاتھ ہلاتے نظر آئے۔ ان تمام باتوں کی اہمیت اس حقیقت سے واضح ہے کہ گزشتہ تین برس کے دوران دی ہیگ میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے جنگی جرائم کے مرتکب پیوٹن کو کسی مغربی ملک کی جانب سے پذیرائی نہیں ملی جبکہ یہاں ان کے لیے ریڈ کارپٹ بچھایا گیا تھا۔
تین گھنٹے بات چیت کے بعد دونوں رہنماؤں نے میڈیا سے گفتگو کی لیکن صحافیوں کے سوالات کے جوابات نہیں دیے۔ پیوٹن نے تیار شدہ مواد سے پڑھ کر بیان دیا جہاں الاسکا کے حوالے سے امریکا اور روس کی تاریخ کے بارے میں بات کرنے کے بعد ٹرمپ کو خوش کرتے ہوئے انہوں نے امریکی صدر کے اس نظریے کی تائید کی کہ اگر وہ اس وقت امریکی صدر ہوتے تو یوکرین کی جنگ کبھی نہ ہوتی۔
پیوٹن نے کہا کہ یہ ملاقات اور اس میں جن نکات پر اتفاق کیا گیا، اگر مسائل کی ’بنیادی وجوہات‘ کو حل کرلیا گیا تو وہ یوکرین میں امن کے نئے دور کا آغاز ثابت ہوں گی۔ ٹرمپ نے اپنے طور پر مختصر بات کی اور یہ کہتے ہوئے آغاز کیا کہ ’جب تک کوئی ڈیل نہیں ہوتی تب تک کوئی معاہدہ نہیں ہوگا‘۔ انہوں نے ملاقات کو نتیجہ خیز قرار دیا جہاں بہت سے نکات پر اتفاق کیا گیا جبکہ ’چند‘ نکات اب بھی باقی ہیں۔
پوڈیم چھوڑنے سے پہلے، ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ اب وہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی، یورپی رہنماؤں اور نیٹو حکام کو مشاورت کی دعوت دیں گے۔
بہ ظاہر بات چیت اچھی رہی ہوگی تب ہی رات گئے وائٹ ہاؤس کی جانب سے بیان جاری کیا گیا کہ یوکرین کے صدر پیر کو ٹرمپ سے ملاقات کے لیے واشنگٹن پہنچیں گے۔ یورپی رہنماؤں سے بھی جو کچھ کہا گیا، اس پر انہوں نے مثبت ردعمل ظاہر کیا۔
امن معاہدے کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ پیوٹن، زیلنسکی اور ان کے مغربی اتحادی ’امن کے لیے زمین نہ دینے‘ کے اپنے مؤقف سے کس حد تک دستبردار ہوتے ہیں۔ الاسکا کے دورے تک ولادیمیر پیوٹن مشرقی یوکرین کا کوئی بھی حصہ واپس کرنے کے لیے تیار نہیں تھے جسے ان کی افواج نے قبضے میں لیا ہے۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ 2014ء میں کریمیا سے روس کے الحاق کو تسلیم کیا جائے۔
فی الحال یوکرین کے لیے جن سیکیورٹی ضمانتوں کے بارے میں بات کی جارہی ہے ان میں نیٹو کی یوکرین کے مشرق کی جانب توسیع کو شامل نہیں کیا گیا۔ پیوٹن کبھی بھی اپنی زمین کے نزدیک مغربی افواج کی موجودگی کو قبول نہیں کریں گے۔ روس کو سب سے پہلے پریشان ہی نیٹو کی توسیع کی بات نے کیا تھا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد روس نے یوکرین کو مغربی یورپ میں اپنے اور نیٹو کے درمیان بفر زون کے طور پر دیکھا۔
تاہم اس حوالے سے ٹرمپ کے وعدے شاید اتنے معنی خیز نہ ہوں کیونکہ انہوں نے غزہ میں اسرائیل کے اقدامات کی حمایت کرکے ثابت کیا کہ ان کے وعدوں کو سنجیدہ نہ لیا جائے جبکہ اس سے قبل وہ غزہ معاملے پر تحفظات کا اظہار کرتے تھے مگر جہاں تک یوکرین کے یورپی تنازع کا تعلق ہے تو انہوں نے اپنی پوزیشن تبدیل کی ہے۔ اس سے قبل وہ کہتے تھے کہ امن کے لیے صرف یوکرین کو اپنی زمین دینا ہوگی اور امریکا نہیں بلکہ یورپ کیف کو سیکیورٹی ضمانتیں پیش کرے گا۔
لیکن جس طرح پیوٹن مسکراتے ہوئے سربراہی اجلاس سے روانہ ہوئے اس نے ظاہر کیا کہ وہ کچھ سمجھوتے کرنے پر مجبور ہوئے ہوں گے جن میں امن کے لیے زمین کا کچھ حصہ دینا بھی شامل ہوسکتا ہے۔ ابھی کے لیے انہوں نے سخت امریکی پابندیوں کو کچھ ہفتوں کے لیے ٹال دیا ہے جبکہ وہ ٹرمپ کو ذاتی طور پر اپنا مؤقف سنانے میں کامیاب رہے ہیں۔
ٹرمپ اپنے آپ کو جو چاہے انعام دینا چاہیں دے سکتے ہیں جیسا کہ ہمارے ملک کی قیادت نے کیا ہے لیکن دنیا کے کروڑوں لوگ صرف اسی صورت میں ان کی حقیقی تعریف کریں گے کہ جب وہ نہ صرف یوکرین میں جنگ کو ختم کرنے میں کامیاب ہوں گے بلکہ غزہ میں فلسطینیوں کی جبری بےدخلی کے منصوبے کو بھی ترک کریں گے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔













لائیو ٹی وی