روس نے پیوٹن اور زیلنسکی کے درمیان فوری ملاقات کا امکان رد کردیا
روس نے ولادیمیر پیوٹن کی یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی سے فوری ملاقات کے امکان کو مسترد کردیا، دونوں ممالک کے درمیان سفارتی کشیدگی بڑھ گئی ہے اور امریکی ثالثی کی کوششیں بھی تعطل کا شکار دکھائی دے رہی ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ صدر ولادیمیر پیوٹن اور زیلنسکی کے درمیان ’ کوئی ملاقات’ طے نہیں ہے، انہوں نے یہ بیان ایسے وقت میں دیا ہے، جب نیٹو کے سربراہ مارک روٹے یوکرین کے لیے سیکیورٹی گارنٹی پر بات چیت کے لیے کیف کے دورے پر تھے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ہفتے کے آغاز میں یہ کہہ کر روسی اور یوکرینی صدور کے درمیان سربراہی ملاقات کی توقعات بڑھا دی تھیں کہ دونوں رہنماؤں نے ملاقات پر اتفاق کیا ہے، لیکن جمعہ کو انہوں نے دونوں رہنماؤں کا موازنہ ’ تیل اور سرکے’ سے کیا۔
انہوں نے واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ ’ ان دونوں کی نہیں بنتی، اور اس کی وجوہات سب کے سامنے ہیں۔’
سرگئی لاوروف نے یوکرین جنگ ، جو چوتھے سال میں داخل ہوچکی ہے، کو حل کرنے کے لیے پیوٹن اور زیلنسکی کے درمیان براہ راست مذاکرات کے امکانات کو بھی ختم کر دیا، انہوں نے یوکرینی صدر کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کریملن کے سخت گیر مؤقف کو دہرایا۔
این بی سی کے پروگرام ’میٹ دی پریس وِد کرسٹن ویلکر‘ کو دیے گئے انٹرویو میں سرگئی لاوروف نے کہا کہ’ کوئی ملاقات طے نہیں ہے۔’
انہوں نے کہا کہ روسی صدر ’ زیلنسکی سے ملنے کے لیے تیار ہیں’ جیسے ہی ایجنڈا تیار ہو جائے، لیکن ایجنڈا ’ بالکل تیار نہیں’ ہے۔
کیف میں روٹے کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے زیلنسکی نے کہا کہ یوکرین کا ’ روس کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں’ ہوا ہے، صرف ٹرمپ کے ساتھ یہ طے پایا ہے کہ سفارتی راستہ کس طرح آگے بڑھ سکتا ہے۔
جمعرات کو انہوں نے الزام لگایا تھا کہ روس ’ملاقات سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے‘ اور ماسکو جنگی کارروائیاں جاری رکھنا چاہتا ہے۔
یوکرین کے لیے مستقبل کی سیکیورٹی کی ضمانتوں کا سوال امریکی قیادت میں حالیہ سفارتی کوششوں کے دوران مرکزی نکتہ رہا ہے، جس کا مقصد جنگ کا خاتمہ ہے۔
ٹرمپ نے پہلے کہا تھا کہ روس نے کیف کے لیے کچھ مغربی سیکیورٹی ضمانتوں پر رضامندی ظاہر کی ہے، تاہم ماسکو نے بعد میں کسی بھی ایسے انتظام پر شکوک کا اظہار کیا، سرگئی لاوروف نے کہا کہ روس کے بغیر ایسی بات چیت کرنا ’خیالی بات ہے، ایک بند گلی ہے۔‘
سرگئی لاوروف نے این بی سی کو بتایا کہ’ ایسے کئی اصول ہیں جنہیں واشنگٹن لازمی تسلیم کرنا چاہتا ہے، جن میں نیٹو کی رکنیت نہ ہونا، علاقائی مسائل پر بات چیت شامل ہے، اور زیلنسکی نے سب سے انکار کر دیا ہے۔’
ماسکو نے 1994 کے بڈاپسٹ میمورنڈم پر دستخط کیے تھے، جس کا مقصد یوکرین، بیلاروس اور قازقستان کے لیے سیکیورٹی کو یقینی بنانا تھا، اس شرط پر کہ وہ سوویت دور سے بچے ہوئے متعدد جوہری ہتھیاروں سے دستبردار ہوجائیں۔
روس نے اس معاہدے کی پہلی خلاف ورزی 2014 میں کریمیا پر قبضے سے کی، اور پھر 2022 میں بڑے پیمانے پر حملہ کر دیا، جس میں لاکھوں افراد بے گھر ہوئے اور دسیوں ہزار مارے جاچکے ہیں۔












لائیو ٹی وی