چیئرمین ایس ای سی پی، کمشنرز کی تنخواہوں میں سالانہ 15 کروڑ 60 لاکھ روپے غیر قانونی اضافے کا انکشاف
آڈٹ رپورٹ نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے مالی معاملات پر سنگین خدشات ظاہر کیے ہیں، جن میں چیئرمین اور کمشنرز کے لیے تنخواہوں کے پیکیج میں غیر مجاز اضافہ شامل ہے، جو سالانہ 15 کروڑ 60 لاکھ روپے سے زائد بنتا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ رپورٹ آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) نے مرتب کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ قانون کے مطابق ایس ای سی پی کو تنخواہوں میں اضافے کے لیے وزارتِ خزانہ سے منظوری حاصل کرنا ضروری ہے، تاہم ایس ای سی پی کی انتظامیہ نے 17 اکتوبر 2024 کو پالیسی بورڈ کے اجلاس میں ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی منظوری دے دی، جو یکم جولائی 2023 سے مؤثر قرار دی گئی۔
آڈٹ میں انکشاف ہوا کہ ایس ای سی پی کے چیئرمین عاکف سعید کی تنخواہ کا پیکیج مالی سال 24-2023 کے لیے 4 کروڑ 15 لاکھ روپے تک پہنچ گیا، جب کہ ہر کمشنر کو بیک ڈیٹ تنخواہوں کے اضافے کی وجہ سے 3 کروڑ 58 لاکھ روپے ملے۔
مزید برآں رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایس ای سی پی نے کمشنرز اور عملے کے لیے 11 کروڑ روپے بطور تفریحی الاؤنس غیر قانونی طور پر تقسیم کیے۔
اے جی پی کی رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ اگرچہ یہ اضافے ایس ای سی پی پالیسی بورڈ نے منظور کیے، لیکن بورڈ کے پاس اس کی اجازت دینے کا اختیار ہی نہیں تھا، مزید یہ کہ تنخواہوں اور الاؤنسز میں اضافے وزارتِ خزانہ کی پیشگی منظوری کے بغیر کیے گئے، جن کی مجموعی مالیت 37 کروڑ 72 لاکھ روپے ہے۔
رپورٹ میں وزارتِ خزانہ پر زور دیا گیا کہ وہ یا تو ان غیر قانونی اضافوں کی منظوری دے یا انہیں ختم کرے۔
آڈٹ نے یہ بھی اجاگر کیا کہ ایس ای سی پی تقریباً 14 ارب روپے وفاقی مجموعی فنڈ میں جمع کرانے میں ناکام رہا، جس میں 7 ارب 11 کروڑ روپے آمدن شامل ہیں، یہ رقوم لائسنسنگ اور رجسٹریشن فیس (4 ارب 13 کروڑ روپے)، انشورنس سیکٹر (59 کروڑ 15 لاکھ روپے)، سیکیورٹیز مارکیٹ (4 کروڑ 77 لاکھ روپے)، اور خصوصی کمپنیوں (ایک ارب 91 کروڑ روپے) سے حاصل کی گئیں۔
پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ 2019 کی دفعہ 37 (1) کے تحت وفاقی حکومت کے قانونی آلات کے تحت کسی خودمختار ادارے کی جانب سے جمع کی گئی تمام آمدنی کو ’ٹریژری سنگل اکاؤنٹ‘ میں جمع کرانا ضروری ہے، تاہم ایس ای سی پی نے اس تقاضے پر عمل نہیں کیا۔
ایس ای سی پی 6 ارب 99 کروڑ روپے کی زائد رقم بھی وفاقی مجموعی فنڈ میں جمع کرانے میں ناکام رہا، حالانکہ آمدنی اور اصل اخراجات میں کسی بھی قسم کی بچت لازمی طور پر فنڈ میں منتقل کرنا ضروری ہے۔












لائیو ٹی وی