شرح سود میں کمی کے باوجود کاروباری شعبے کا بینکوں سے قرض لینے سے گریز
شرح سود میں نمایاں کمی کے باوجود مالی سال کے ابتدائی 45 دنوں میں کوئی نیا بینک قرضہ ریکارڈ نہیں ہوا، جو صنعت و تجارت کی ہچکچاہٹ اور شرح سود میں مزید کمی کے مطالبے کی عکاسی کرتا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی جانب سے منگل کو جاری کیے گئے یکم جولائی سے 15 اگست تک کے اعداد و شمار کے مطابق قرض خواہوں نے 232 ارب روپے کے قرضے واپس کیے، جو گزشتہ سال اسی مدت میں 317 ارب روپے تھے، یہ کمی اس تناظر میں خاصی اہم ہے کہ گزشتہ سال شرح سود تقریباً 22 فیصد تھی جبکہ رواں سال یہ نصف ہو کر 11 فیصد پر آ گئی ہے۔
قرض لینے کی لاگت میں اس بڑی کمی کے باوجود تجارت اور صنعت محتاط ہیں کیونکہ ایس بی پی کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے مہنگائی میں اضافے کے خدشات ظاہر کیے ہیں، جو موجودہ مالی سال میں بڑھ سکتی ہے، نتیجتاً کاروباری طبقہ سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے مزید شرحِ سود میں کمی کا مطالبہ کر رہا ہے۔
بینکاروں کا کہنا ہے کہ صنعتی اور تجارتی شعبوں کی جانب سے نئے قرضے نہ لینے کے باعث بینکاری نظام میں زائد سرمایہ جمع ہو گیا ہے، جسے وہ بڑھتے ہوئے پیمانے پر حکومتی قرضہ جاتی ضرورتوں کی طرف منتقل کر رہے ہیں، تازہ ترین ٹریژری بلز کی نیلامی میں حکومتی قرضے ہدف سے تجاوز کر گئے، جہاں مجموعی بولیاں 1.4 کھرب روپے تک پہنچ گئیں، جو اس زائد لیکویڈیٹی کی نشاندہی کرتی ہیں۔
مالی ماہرین کا کہنا ہے کہ بینک اپنے منافع کے لیے بڑی حد تک حکومتی قرضوں پر انحصار کرتے ہیں، بعض اندازوں کے مطابق بینکوں کی 80 فیصد آمدنی حکومتی سیکورٹیز سے آتی ہے، حکومت کے بڑھتے ہوئے اندرونی و بیرونی قرضے اور سود کی بڑھتی ہوئی ادائیگیاں، جو مالی سال 2025 میں تقریباً 9 کھرب روپے کے قریب ہوں گی، مالی بوجھ کو مزید سنگین بنا رہی ہیں۔
ایک تجزیہ کار نے کہا کہ ’معاشی پالیسی اپنی متوقع کارکردگی نہیں دکھا رہی، تجارت و صنعت نئے قرضے لینے سے گریزاں ہیں اور اپنے ہی وسائل پر انحصار کر کے کام چلا رہے ہیں، یہ رجحان 3.5 فیصد کے معتدل شرح نمو کے ہدف کے حصول کی کوششوں کو متاثر کرے گا‘۔
بینکوں کی حکومتی سیکیورٹیز میں سرمایہ کاری میں مسلسل اضافہ ہوا ہے جو 31 مئی 2025 تک بڑھ کر 35.44 کھرب روپے تک جا پہنچی۔
یہ سرمایہ کاری بالخصوص پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز جیسے طویل مدتی آلات کے ذریعے بینکوں کے لیے خاطر خواہ منافع پیدا کرتی ہے۔
تجزیہ کار نے مزید کہا کہ ’بینک اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جیسا کہ یورپ اور امریکا میں دیکھا جا سکتا ہے، تاہم پاکستان میں وہ بنیادی طور پر حکومتی قرضوں سے منافع کما رہے ہیں، جو بالآخر عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے پورا ہوتا ہے‘۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت رواں مالی سال میں بینکاری شعبے سے مالی معاونت پر بھاری انحصار جاری رکھے گی کیونکہ اگرچہ محصولات میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن وہ اب بھی اہداف سے کم ہیں، موجودہ رجحان پاکستان کی معیشت کو درپیش چیلنجز کو اجاگر کرتا ہے، بینکوں میں زائد لیکویڈیٹی اور کاروباری طبقے کی ہچکچاہٹ، جو پیداواری سرمایہ کاری اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے کے لیے فوری پالیسی اقدامات کی ضرورت کو نمایاں کرتا ہے۔













لائیو ٹی وی