راولپنڈی: دسویں کی طالبہ کو شادی کا جھانسہ دیکر ’ریپ‘ کرنے والا پرنسپل گرفتار

شائع September 3, 2025
— فائل فوٹو: کینوا
— فائل فوٹو: کینوا

راولپنڈی میں دسویں جماعت کی طالبہ کو شادی کا جھانسہ دے کر مبینہ طور پر ریپ کرنے والے اکیڈمی کے پرنسپل کو گرفتار کر لیا گیا۔

ڈان نیوز کے مطابق پیرودہائی پولیس نے دسویں جماعت کی طالبہ کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا۔

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق اعظم نذیر تارڑ نے مذکورہ طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی اور اسقاط حمل کے الزام کی ’فوری اور شفاف‘ تحقیقات کا حکم دے دیا۔

راولپنڈی کے پیر ودھائی ٹاؤن کے علاقے خیابانِ سید کی رہائشی طالبہ نے پیر کو پولیس کو ایف آئی آر درج کرائی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ اس کی اکیڈمی کے پرنسپل ضیاالرحمٰن نے اسے کئی بار زیادتی کا نشانہ بنایا اور اسقاط حمل پر مجبور کیا۔

اعظم نذیر تارڑ کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق نے واقعے کی فوری اور شفاف تحقیقات کی ہدایت کی ہے‘۔

وزیر انسانی حقوق نے ملزم کی فوری گرفتاری اور واقعے کی رپورٹ طلب کی، ان کا کہنا تھا کہ ’متاثرہ طالبہ کو انصاف کی فراہمی ہر صورت یقینی بنائی جائے‘۔

متاثرہ طالبہ نے اپنی شکایت میں الزام عائد کیا تھا کہ وہ دسویں جماعت میں زیرتعلیم تھی تو بے اولاد پرنسپل نے اس سے شادی کی پیشکش کی تھی، جس پر اس نے پرنسپل سے کہا کہ وہ اس معاملے پر اس کے والدین سے بات کرے۔

شکایت کے مطابق پرنسپل نے اسے یقین دلایا کہ وہ میٹرک کے امتحان میں اچھے نمبر حاصل کرنے میں اس کی مدد کرے گا اور اسی بہانے اسے جسمانی تعلقات پر آمادہ کیا، لڑکی نے الزام لگایا کہ ملزم نے اسے دفتر میں بلا کر ریپ کیا، چند ماہ بعد جب اس نے پرنسپل کو بتایا کہ وہ حاملہ ہے تو اس نے شادی کرنے کے بجائے اسے اسقاط حمل کی دوائیں دیں۔

ایف آئی آر کے مطابق ملزم وقتاً فوقتاً اسے ریپ کا نشانہ بناتا رہا اور دوبارہ حاملہ بھی کیا، تاہم جب اس نے شادی پر اصرار کیا تو ملزم نے انکار کر دیا اور اسے تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔

پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 376 کے تحت زیادتی کی سزا موت یا کم از کم 10 سال اور زیادہ سے زیادہ 25 سال قید، یا تاحیات قید اور جرمانہ ہے۔

گزشتہ مئی میں راولپنڈی کی ایک سیشن عدالت نے ایک شخص کو خاتون سے زیادتی کرنے پر انسدادِ ریپ ایکٹ 2021 کی دفعہ 17 کے تحت سزائے موت سنائی تھی۔

پاکستان میں ریپ قوانین میں نمایاں اصلاحات کی گئی ہیں، خصوصاً انسداد ریپ آرڈیننس 2020 کے تحت خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں تاکہ فوری مقدمات نمٹائے جا سکیں، میڈیکو لیگل معائنہ 6 گھنٹے کے اندر لازمی قرار دیا گیا اور ایک نیشنل سیکس افینڈر رجسٹری بھی قائم کی گئی۔

تاہم مسائل اب بھی موجود ہیں اور پائیدار سماجی ترقیاتی تنظیم (ایس ایس ڈی او) کی رپورٹ کے مطابق ملک گیر سطح پر ریپ کے مقدمات میں سزا کی شرح صرف 0.5 فیصد ہے۔

قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) کی چیئرپرسن رابعہ جویری آغا نے گزشتہ ماہ بتایا تھا کہ ریپ کی شکار خواتین میں سے صرف 41 فیصد شکایت درج کراتی ہیں اور ان میں سے بھی اکثر سماجی دباؤ کے باعث مقدمات واپس لے لیتی ہیں۔

گزشتہ ماہ وزارت داخلہ نے رپورٹ کیا تھا کہ 2021 سے جون 2025 تک اسلام آباد میں درج جنسی تشدد کے 567 مقدمات میں سے 200 بچوں کے ساتھ ریپ کے تھے۔

جون میں راولپنڈی پولیس نے اڈیالہ جیل کے ایک ملازم کو گرفتار کیا تھا جس نے مبینہ طور پر اپنی 11 سالہ بھتیجی کو جیل کالونی میں ریپ کا نشانہ بنایا تھا، اسی ماہ دھمیال کے علاقے کی ایک خاتون نے پولیس کو شکایت دی کہ اس کے مکان مالک کے بیٹے نے اس کے ساتھ مبینہ طور پر اس کا ریپ کیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025