’دہشتگردوں کو بالائی باجوڑ میں محدود نہ کیا جاتا تو وہ خیبر پختونخوا پر قابض ہو جاتے‘

شائع September 12, 2025
— فائل فوٹو: ڈان
— فائل فوٹو: ڈان

خیبر پختونخوا میں عسکریت پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے کے لیے فوجی آپریشن کی نئی مخالفت کے باوجود حکام نے کہا ہے کہ باجوڑ میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور یہ قبائلی ضلع میں شدت پسندوں کو قابو میں رکھنے کے لیے ضروری ہے، جو دیگر 9 اضلاع کے لیے ایک ’گزرگاہ‘ کی حیثیت رکھتا ہے، اگر دہشت گردوں کو بالائی باجوڑ میں محدود نہ کیا جاتا تو وہ خیبر پختونخوا پر قابض ہو جاتے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ بروقت کارروائی نہ کرنے کی صورت میں کم از کم 10 دیگر اضلاع کے لیے سنگین سیکیورٹی خطرات پیدا ہوسکتے تھے اور افغانستان سے متصل صوبے کی مجموعی صورتحال مزید پیچیدہ ہو جاتی۔

سول انتظامیہ کے ایک اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ اگر شدت پسندوں کو باجوڑ کے بالائی علاقوں میں محدود نہ کیا جاتا تو وہ خیبر پختونخوا پر قابض ہو جاتے۔

اہلکار نے کہا کہ ’یہ ضلع مالاکنڈ ڈویژن کے 9 اضلاع اور مردان کے علاقے کاٹلنگ کے لیے گزرگاہ کا کردار ادا کرتا ہے، یہ تمام علاقے آپس میں جڑے ہوئے ہیں‘۔

ایک اور اہلکار نے بتایا کہ خطرہ بہت بڑا تھا اور اگر بروقت کارروائی نہ کی جاتی تو حالات قابو سے باہر ہو سکتے تھے، ٹارگٹڈ کارروائی کے نتیجے میں بڑی تعداد میں شدت پسند علاقے چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور اب ان کے سرحد کے قریب علاقوں میں جمع ہونے کا خدشہ ہے۔

اہلکار کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے 36 میں سے 11 علاقے کلیئر کر لیے ہیں اور عارضی طور پر بے گھر ہونے والے 3 ہزار سے زائد خاندان اپنے گھروں کو واپس جا چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں لگا تھا کہ ڈمہ ڈولہ اور کٹ کوٹ جیسے گنجان علاقے مشکل ثابت ہوں گے، لیکن شدت پسند اب وہاں سے پسپا ہو گئے ہیں اور ہم کلیئرنس میں مصروف ہیں تاکہ لوگوں کو گھروں کو واپس جانے کی اجازت دی جا سکے‘۔

افغان سرحد سے تقریباً 7 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ڈمہ ڈولہ ہمیشہ شدت پسندوں کا گڑھ رہا ہے، جنوری 2006 میں یہاں امریکی فضائی حملوں میں کئی مدرسے کے طلبہ مارے گئے تھے، پاکستان نے اس حملے سے لاتعلقی ظاہر کی تھی، جس کا ہدف مبینہ طور پر القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری تھے۔

حکام کا ماننا ہے کہ اگر موجودہ رفتار سے ٹارگٹڈ کارروائی جاری رہی تو بقیہ علاقے بھی جلد کلیئر ہو جائیں گے اور لوگ سردیوں سے قبل گھروں کو واپس جا سکیں گے، ایک اہلکار نے دعویٰ کیا کہ باجوڑ دیگر عسکریت زدہ اضلاع کے لیے ایک ماڈل کے طور پر کام کر سکتا ہے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ علاقہ وار ٹارگٹڈ آپریشن مقامی آبادی کو شامل کرکے کیا گیا، عوام کو کہا گیا کہ شدت پسندوں کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کریں تاکہ ان کی جائیدادوں اور گھروں کو نقصان نہ پہنچے اور وہ بے گھر ہونے سے بچ سکیں۔

انتظامیہ نے 30 جولائی کو مقامی عمائدین سے رابطے کا عمل شروع کیا، یہ مذاکرات 14 دن جاری رہے لیکن شدت پسندوں نے علاقے سے نکلنے سے انکار کر دیا، اس کے بعد مقامی رہائشیوں نے ٹارگٹڈ آپریشن کے لیے اپنے علاقے خالی کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔

ڈان کو موصول ہونے والی ایک دستاویز کے مطابق عمائدین نے تسلیم کیا کہ جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے، اس طرح سیکیورٹی فورسز کو ریاستی رٹ قائم کرنے کا اختیار دیا گیا، دستاویز میں یہ بھی کہا گیا کہ املاک کو کم سے کم نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے گی اور معاوضہ دیا جائے گا۔

اس معاہدے نے سیکیورٹی فورسز کو یہ اعتماد دیا کہ کارروائی میں عام شہریوں کے جانی نقصان یا املاک کی تباہی کا خطرہ کم ہوگا۔

اعداد و شمار کے مطابق 21 ہزار خاندان اپنے گھروں سے نکلے جن میں سے 8200 کو سرکاری عمارتوں میں پناہ دی گئی جبکہ 12 ہزار 800 نے مقامی آبادی کے ساتھ قیام کیا۔

اہلکار کے مطابق ’سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ 21 اگست کو بے گھر کیے گئے ترکھو کے 6 دیہات کے لوگوں کی واپسی محض 5 دنوں میں ممکن بنائی گئی، اس کے بعد مزید 6 علاقے کلیئر کیے گئے اور 8 ستمبر کو وہاں کے رہائشیوں کو گھروں میں واپس جانے کی اجازت دی گئی‘۔

کارٹون

کارٹون : 5 دسمبر 2025
کارٹون : 4 دسمبر 2025