جسٹس طارق جہانگیری کا کام سے روکنے کیخلاف درخواست کی جلد سماعت کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے عدالت عالیہ کے بطور جج کام سے روکنے کے حکم کے خلاف درخواست کی جلد سماعت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔
واضح رہے کہ 16 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جعلی ڈگری کیس میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کو سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک بطور جج کام سے روکنے کا حکم دے دیا تھا، جسٹس طارق محمود نے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
واضح رہے کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری کی مبینہ جعلی ڈگری سے متعلق ایک شکایت جولائی 2023 میں سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرائی گئی تھی، جبکہ ان کی تقرری کو چیلنج کرنے والی ایک درخواست رواں برس اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی تھی، معاملہ اُس خط کے گرد گھومتا ہے، جو پچھلے سال سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگا تھا، جس میں مبینہ طور پر کراچی یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات کی طرف سے جج کی قانون کی ڈگری کا ذکر تھا۔
ایک غیر معمولی پیش رفت میں 16 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد اعظم خان پر مشتمل ڈویژن بینچ نے میاں داؤد ایڈووکیٹ کی جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنے کی درخواست پر سماعت کے بعد تحریری حکم نامہ جاری کردیا تھا۔
19 ستمبر کو جسٹس طارق محمود جہانگیری نے سپریم کورٹ میں خود پیش ہو کر اس فیصلے کو چیلنج کیا تھا، انہوں نے استدعا کی تھی بطور جج کام سے روکنے کا حکم کالعدم اور معطل کیا جائے اور ڈویژن بینچ کو مزید کارروائی سے روکا جائے۔
جج نے گزشتہ روز ایڈووکیٹ سید رفاقت حسین شاہ کے ذریعے ایک اور درخواست دائر کی، جس میں جلد سماعت کی استدعا کی گئی ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ جج کو عدالتی فرائض انجام دینے سے روک دیا گیا ہے اور وہ انصاف فراہم نہیں کر سکتے، حالانکہ یہ ’قانون میں طے شدہ مؤقف‘ ہے کہ کسی ہائی کورٹ کے جج کو اپنے فرائض کی انجام دہی سے روکنے کا حکم نہیں دیا جا سکتا۔
مزید کہا گیا کہ ’یہ کیس ہائی کورٹ کے جج کے فرائض کی انجام دہی اور عدلیہ کی آزادی سے متعلق اہم قانونی سوالات اٹھاتا ہے، جو کسی بھی دائرہ اختیار کے لیے نہایت تشویش کا باعث ہیں، لہٰذا اس عدالت کی فوری مداخلت ضروری ہے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ متنازع حکم میاں داؤد کی نیک نیتی پر غور کیے بغیر جاری کیا گیا، جبکہ ایسی نیک نیتی کی غیر موجودگی میں درخواست قابل سماعت ہی نہیں تھی۔
“لہٰذا، اس تعین کا آغاز ہی میں ہونا ضروری ہے تاکہ آئینی عہدیداروں کے خلاف بدنیتی پر مبنی عدالتی کارروائی کے دروازے بند کیے جا سکیں۔ کسی جج کو فرائض کی انجام دہی سے روکنے کا اہم فیصلہ ان کی بات سنے بغیر کر لیا گیا، درخواست گزار کو کبھی سنا ہی نہیں گیا، لہٰذا یہ لازمی ہے کہ درخواست کی قابلِ سماعت ہونے پر اعتراضات کو آغاز ہی میں سنا جائے تاکہ غیر ضروری طور پر درخواست گزار کو انصاف فراہم کرنے سے نہ روکا جا سکے۔
جج نے استدعا کی کہ ان کی درخواست اس ہفتے سماعت کے لیے مقرر کی جائے۔












لائیو ٹی وی