نیتن یاہو کی مداخلت سے غزہ معاہدے کا مسودہ تبدیل، پاکستان کا موقف غیر یقینی

شائع October 1, 2025
اسحٰق ڈار نے کہا کہ 8 مسلم ممالک کے مشترکہ اعلامیے پر قائم ہیں، کوئی فرق ہوا تو ہم اسی پر چلیں گے — فوٹو: پی آئی ڈی
اسحٰق ڈار نے کہا کہ 8 مسلم ممالک کے مشترکہ اعلامیے پر قائم ہیں، کوئی فرق ہوا تو ہم اسی پر چلیں گے — فوٹو: پی آئی ڈی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کی جنگ ختم کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ پیش کیے جانے کے ایک روز بعد ہی اس کے مسودے پر اختلافات کے آثار نمایاں ہوگئے ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ بات منگل کو وزیرِ خارجہ اسحٰق ڈار کی پریس کانفرنس سے بھی ظاہر ہوئی، جہاں انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ اگر 8 مسلم ممالک کی طرف سے مشترکہ طور پر پیش کی گئی ترامیم شامل نہ کی گئیں تو امریکا کا غزہ امن منصوبہ قبول نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ یہ دستاویز امریکا نے جاری کی ہے، گویا پاکستان کے پالیسی ساز خود کو اس منصوبے سے الگ ظاہر کر رہے ہیں، حالانکہ اس سے پہلے ٹرمپ دعویٰ کر چکے ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر دونوں اس کی 100 فیصد حمایت کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ہمارا مسودہ نہیں، جو ہم نے انہیں بھیجا تھا، کچھ اہم نکات ہیں جنہیں ہم شامل کرنا چاہتے ہیں، اگر وہ شامل نہ ہوئے تو انہیں شامل کیا جائے گا‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کے اعلان کو ’ان کی طرف سے اعلان‘ سمجھا جائے۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان 8 مسلم ممالک کی جانب سے دیے گئے مشترکہ اعلامیے پر قائم ہے، اگر کوئی فرق ہوا، تو ہم اسی پر چلیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کے پیش کردہ منصوبے میں فلسطینیوں کی ایک آزاد ٹیکنوکریٹ حکومت قائم کرنے کی بات کی گئی ہے، جس کی نگرانی ایک بین الاقوامی ادارہ کرے گا، جو زیادہ تر فلسطینیوں پر مشتمل ہوگا۔

بین الاقوامی استحکام فورس (آئی ایس ایف) کا حصہ بننے کے امکان کے بارے میں وہ محتاط رہے۔

انہوں نے کہا کہ زمین پر فلسطینی قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوں گے، ان کی مدد کے لیے علیحدہ افواج بھی ہوں گی، انڈونیشیا نے اس کے لیے 20 ہزار فوجی دینے کی پیشکش کی ہے، مجھے یقین ہے پاکستان کی قیادت بھی اس بارے میں فیصلہ کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف غزہ کے لیے ایک خصوصی فورس ہوگی اور اس کی تعیناتی کا انتظام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں دستاویزی شکل میں درج ہوگا۔

معاہدے کی راہ

پریس کانفرنس کے دوران اسحٰق ڈار نے سفارتی عمل کی وضاحت کی جس کے نتیجے میں امن منصوبہ طے ہوا، انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کا ایک بڑا مقصد بطور امت مسلمہ کا رکن کچھ ’ہم خیال ممالک‘ کے ساتھ مل کر غزہ کی عوام کی مشکلات ختم کرنے کی کوشش کرنا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان سمیت 8 ممالک نے یہ معاملہ صدر ٹرمپ کے سامنے بہت فعال انداز میں اٹھانے پر اتفاق کیا ہے۔

وزیر خارجہ کے مطابق ٹرمپ سے ملاقات کا مقصد غزہ میں جنگ بندی، انسانی امداد کی بلا رکاوٹ ترسیل، فلسطینیوں کی جبری بے دخلی روکنا، بے گھر افراد کی واپسی کا انتظام، غزہ کی تعمیرِ نو اور اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کو ضم کرنے کی کوششوں کو روکنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ مقاصد انہیں (ٹرمپ) بتائے گئے، اور ان سے کہا گیا کہ وہ ہمارے ساتھ مل کر انہیں حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

اس کے بعد فیصلہ ہوا کہ اجلاسوں کی تفصیلات خفیہ اور کلاسفائیڈ رہیں گی۔

اسحٰق ڈار نے مزید بتایا کہ سعودی ہم منصب نے انہیں پیغام بھیجا کہ 5 ممالک مشترکہ اعلامیے پر متفق ہوگئے ہیں، اور پاکستان کی رضامندی بھی ضروری ہے، اور انہوں نے انڈونیشیا اور یو اے ای سے بھی رابطہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے کچھ ترامیم تجویز کیں اور سعودی وزیر خارجہ سے دوبارہ بات کی، پھر ایک نظرثانی شدہ مسودہ مجھے بھیجا گیا اور مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا۔

دو ریاستی حل پر سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، بلکہ میں کہوں گا کہ باقی 7 ممالک بھی ہمارے ساتھ ہیں۔

مسودے میں تبدیلیاں

امریکی میڈیا ’ایکسیوس‘ کے مطابق موجودہ معاہدہ اس سے کافی مختلف ہے جس پر پہلے امریکا اور عرب و مسلم ممالک متفق ہوئے تھے، اور اس کی وجہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی مداخلت تھی۔

اہم رکاوٹ اسرائیلی انخلا کے طریقۂ کار اور وقت سے متعلق ترامیم تھیں، جنہیں نیتن یاہو نے وائٹ ہاؤس کے ایلچی اور ٹرمپ کے داماد جیرڈ کُشنر کے ساتھ 6 گھنٹے کی ملاقات میں شامل کروایا۔

ان ترامیم کے مطابق اسرائیل کا انخلا حماس کے غیر مسلح ہونے کی پیش رفت سے مشروط ہوگا اور اسرائیل کو اس پر ویٹو کا حق حاصل ہوگا۔

حتیٰ کہ اگر تمام شرائط پوری ہو جائیں اور انخلا کے تین مراحل مکمل ہو جائیں، تب بھی اسرائیلی فوجیں ایک ’سیکیورٹی پیرامیٹر‘ کے اندر رہیں گی، جب تک کہ غزہ کو دہشت گردی کے دوبارہ ابھرنے کے خطرے سے محفوظ نہ سمجھا جائے۔

اگرچہ بظاہر کوئی سخت ردعمل سامنے نہیں آیا، لیکن ’ایکسیوس ’کے مطابق سعودی عرب، مصر، اردن اور ترکیہ کے حکام پسِ پردہ سخت ناراض تھے۔

قطر نے حتیٰ کہ امریکی انتظامیہ کو منصوبہ جاری نہ کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کی، لیکن وائٹ ہاؤس نے یہ منصوبہ پھر بھی جاری کر دیا اور عرب و مسلم ممالک پر دباؤ ڈالا کہ وہ اس کی حمایت کریں، نتیجتاً 8 ممالک نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں ٹرمپ کے اعلان کا خیرمقدم کیا گیا لیکن اس کی مکمل حمایت نہیں کی گئی۔

حماس کیلئے ڈیڈ لائن

قطر اور مصر نے جب پیر کو یہ 20 نکاتی منصوبہ حماس کو دیا تو صدر ٹرمپ نے گروپ کو 3 سے 4 دن کی مہلت دی کہ وہ اس پر عمل درآمد قبول کرے، ورنہ ’انتہائی افسوسناک انجام‘ کے لیے تیار رہے۔

واشنگٹن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ اسرائیلی اور عرب رہنما منصوبے کی منظوری دے چکے ہیں اور اب صرف حماس کے فیصلے کا انتظار ہے۔

انہوں نے کہا کہ حماس یا تو کرے گی یا نہیں کرے گی اور اگر نہیں کرے گی تو اس کا انجام بہت برا ہوگا۔

بی بی سی سے گفتگو میں حماس کے ایک سینیئر رہنما نے کہا کہ ’یہ منصوبہ غالباً مسترد کر دیا جائے گا، کیونکہ یہ اسرائیل کے مفاد میں ہے اور فلسطینی عوام کے مفادات کو نظر انداز کرتا ہے‘۔

ذرائع کے مطابق حماس کے لیے اپنے ہتھیار ڈالنا اور غیر مسلح ہونا ناممکن شرط ہے۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025