قانون ساز فنڈنگ منصوبہ منظور کرنے میں ناکام، امریکا میں شٹ ڈاؤن نافذ ہوگیا

شائع October 1, 2025
— فوٹو: یو ایس سینیٹ
— فوٹو: یو ایس سینیٹ

ریپبلکن کی جانب سے پیش کی گئی امریکی حکومت کے شٹ ڈاؤن کو روکنے کی تجویز 60 سینیٹ ووٹوں کی حد پوری کرنے میں ناکام رہی، حتمی ووٹوں کی گنتی میں 55 حق میں اور 45 مخالفت میں آئے۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی حکومت کے بڑے حصے میں شٹ ڈاؤن نافذ ہوگیا ہے، وائٹ ہاؤس نے بھی شٹ ڈاؤن کے نفاذ کی تصدیق کر دی ہے۔

جب بدھ کی صبح امریکی جاگے تو حکومت کے پاس فنڈنگ نہیں تھی، یہ دسمبر 2018 کے بعد امریکا میں پہلا شٹ ڈاؤن ہے، اس کی وجہ سے کچھ سرکاری ادارے اور خدمات عارضی طور پر رک جائیں گی، لیکن تمام خدمات معطل نہیں ہوں گی۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے پہلے دھمکی دی تھی کہ اگر شٹ ڈاؤن ہوا تو کئی وفاقی ملازمین کو مستقل طور پر نوکری سے نکال دیا جائے گا، تاہم عالمی مالیاتی منڈیاں اس صورتحال کو فی الحال زیادہ سنجیدہ نہیں لے رہیں۔

اہم سرکاری ملازمین (جیسے ایمرجنسی سروسز والے) اپنا کام جاری رکھیں گے، ملازمین کو تنخواہ کے بغیر چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے، لیکن کانگریس کے سیاستدان اپنی تنخواہیں لیتے رہیں گے۔

ریپبلکن اور ڈیموکریٹ ایک دوسرے کو اس ناکامی کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں، کیوں کہ بل کو منظور کرنے کے لیے 100 میں سے 60 سینیٹرز کی حمایت درکار تھی۔

شٹ ڈاؤن کے اثرات

بی بی سی نیوز کی رپورٹ کے مطابق امریکا کی وفاقی حکومت مالیاتی بندش کا شکار ہوگئی ہے، کیوں کہ ریپبلکن اور ڈیموکریٹک قانون ساز بجٹ تنازع حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

یہ تعطل اکتوبر اور اس کے بعد تک حکومتی اخراجات کی فراہمی کو متاثر کرے گا، اور توقع ہے کہ امریکی عوام کو فضائی سفر سے لے کر چڑیا گھر کی سیر تک وسیع پیمانے پر مشکلات کا سامنا ہوگا۔

سیاسی جمود سے وفاقی ورک فورس کا 40 فیصد حصہ (تقریباً 8 لاکھ افراد) بلا معاوضہ رخصت پر بھیجنے کی نوبت آئے گی۔

وفاقی حکومت کی بندش فضائی مسافروں کو مختلف انداز میں متاثر کرے گی، جیسے کہ لمبی سیکیورٹی لائنیں اور ایئر ٹریفک کنٹرولرز کے بغیر تنخواہ کام نہ کرنے کی وجہ سے پروازوں میں تاخیر کا سامنا کرنا ہوگا۔

ایئر ٹریفک کنٹرول اور ٹرانسپورٹیشن سیفٹی ایڈمنسٹریشن (ٹی ایس اے) کے اہلکاروں کو ’اہم‘ تصور کیا جاتا ہے، اس لیے وہ کام جاری رکھیں گے، مگر جب تک بندش ختم نہ ہو جائے انہیں تنخواہ نہیں ملے گی۔

گزشتہ بندش (2018–2019) کے دوران ان میں سے کئی اہلکار بیماری کی رخصت پر چلے گئے تھے، جس سے ایئرپورٹ پر مسافروں کو تاخیر کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

امریکا سے باہر سفر کرنے والے افراد بھی متاثر ہوں گے، کیوں کہ پاسپورٹ ایجنسیاں خبردار کر رہی ہیں کہ سفری دستاویزات کی پروسیسنگ معمول سے زیادہ وقت لے سکتی ہے۔

وفاقی ملازمین سب سے زیادہ متاثر ہوں گے کیوں کہ بندش کے دوران انہیں تنخواہیں نہیں ملیں گی۔

کچھ ملازمین دوسرے کام تلاش کریں گے، جیسا کہ پچھلی بندشوں میں ہوا۔ غیر ضروری قرار دیے گئے ملازمین گھروں پر رہیں گے، لیکن ماضی میں انہیں بعد میں واجب الادا تنخواہیں ادا کی گئی ہیں۔

کئی ادارے جیسے بیماریوں پر قابو پانے والا مرکز (سی ڈی سی) اور قومی ادارہ برائے صحت (این آئی ایچ) اپنے بہت سے ملازمین کو فارغ کریں گے، جس سے جاری تحقیق اور تجربات متاثر ہوں گے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جنہوں نے عہدہ سنبھالنے کے بعد حکومتی اخراجات میں کٹوتی اور وفاقی نوکریوں میں کمی کی تھی، وہ بار بار خبردار کر چکے ہیں کہ بندش مزید چھانٹیوں کو تیز کر سکتی ہے اور ان خدمات و پروگراموں میں کٹوتی کی اجازت دے سکتی ہے جو ڈیموکریٹس کے لیے اہم ہیں۔

وفاقی ایجنسیوں کے ٹھیکے دار (جو حکومت کے براہِ راست ملازم نہیں ہیں) بھی کام سے محروم ہو جائیں گے، ذمہ دار وفاقی بجٹ کمیٹی کے مطابق انہیں عام طور پر بعد میں تنخواہ نہیں ملتی۔

وفاقی زمینیں، بشمول نیشنل پارکس اور نیشنل فاریسٹ، ماضی کی بندشوں کے دوران عوام کے لیے بند کر دی گئی تھیں، کیوں کہ رینجرز اور دیگر ملازمین کو گھر بھیج دیا گیا تھا۔

پچھلی بندش کے دوران ٹرمپ انتظامیہ نے پارکس کھلے رکھنے کا فیصلہ کیا لیکن وہاں عملہ نہ ہونے کے برابر تھا۔

پارکس کے حامیوں کے مطابق اس فیصلے سے پارکس کو نقصان پہنچا تھا، کیوں کہ سیاح محفوظ علاقوں میں گاڑیاں لے گئے، تاریخی مقامات کو نقصان پہنچایا اور کچرا پھیلایا تھا۔

40 سے زیادہ سابقہ پارک سپرنٹنڈنٹس نے وائٹ ہاؤس سے اپیل کی ہے کہ بندش کی صورت میں پارکس کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے۔

کولیشن ٹو پروٹیکٹ امریکا‘ز نیشنل پارکس ایمیلی تھامسن نے کہا کہ ہم میوزیمز کو کیوریٹرز کے بغیر کھلا نہیں چھوڑتے، یا ہوائی اڈوں کو ایئر ٹریفک کنٹرولرز کے بغیر نہیں چلاتے، ہمیں اپنے نیشنل پارکس کو بھی نیشنل پارک سروس کے ملازمین کے بغیر کھلا نہیں چھوڑنا چاہیے۔

چڑیا گھر کی سیر

واشنگٹن ڈی سی کے مشہور اسمتھسونیئن میوزیمز کم از کم اگلے پیر 6 اکتوبر تک کھلے رہیں گے۔

اسمتھسونیئن کی ویب سائٹ پر کہا گیا ہے کہ ادارے کے پاس پچھلے سالوں سے بچا ہوا فنڈ موجود ہے، جو اسے کھلا رکھنے میں مدد دے گا۔

اسمتھسونیئن کے مطابق نیشنل زو کے جانوروں کو ’ خوراک دی جائے گی، اور دیکھ بھال کی جاتی رہے گی‘، لیکن زو کی لائیو ویب کیمز بند کر دی جائیں گی کیونکہ انہیں غیر ضروری سمجھا گیا ہے۔

اس سے شائقین کے لیے پانڈا، شیر، ہاتھی اور دیگر جانور دیکھنے کی سہولت متاثر ہوگی۔

بزرگوں اور غریبوں کیلئے صحت کی دیکھ بھال

میڈی کیئر اور میڈیکیڈ (بزرگوں اور غریبوں کے لیے سماجی صحت کے پروگرام) جاری رہیں گے، لیکن عملے کی کمی کے باعث کچھ خدمات میں تعطل آ سکتا ہے۔

ایمرجنسی ڈیزاسٹر ریلیف زیادہ تر متاثر نہیں ہوگا، لیکن آفات سے متعلق دیگر سرکاری کام رک سکتے ہیں۔

نیشنل فلڈ انشورنس پروگرام بند ہو جائے گا، جس سے ان جائیدادوں کے رہن تاخیر کا شکار ہوں گے جنہیں حکومتی انشورنس درکار ہے، لیکن اگر بندش طویل ہو گئی، تو فیڈرل ایمرجنسی مینجمنٹ ایجنسی (ایف ای ایم اے) کے پاس اپنے ڈیزاسٹر ریلیف فنڈ کے لیے پیسہ ختم ہو سکتا ہے۔

غذائی امدادی پروگرام بھی متاثر ہوں گے، خواتین، شیرخوار بچوں اور بچوں (ڈبلیو آئی سی) کے لیے سپلیمنٹری نیوٹریشن پروگرام کے پاس فنڈز جلد ختم ہو جائیں گے۔

فوڈ اسٹامپس کے نام سے مشہور سپلیمنٹری نیوٹریشن اسسٹنس پروگرام (ایس این اے پی) کچھ عرصے تک جاری رہنے کی توقع ہے، لیکن اس کے بھی فنڈز ختم ہونے کا خطرہ ہے،

ٹرمپ کی بڑے پیمانے پر برطرفیوں کی دھمکی

حکومت کے شٹ ڈاؤن (بندش) سے قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ عندیہ دیا کہ بڑی تعداد میں لوگ نوکریوں سے نکالے جا سکتے ہیں، ایسی چیز جسے انہوں نے ناقابلِ واپسی قرار دیا۔

سیاسی تجزیہ کار اور سابق کانگریسی عملے کے رکن ایرک ہیم کے مطابق ایسی دھمکیاں ابتدا میں ایک ’ہتھیار‘ سمجھی جا سکتی ہیں تاکہ ڈیموکریٹس کو اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا جا سکے۔

 .امریکی صدر واضح کر چکے کہ وہ حکومت کو مزید مختصر بنانا چاہتے ہیں—فوٹو: رائٹرز
.امریکی صدر واضح کر چکے کہ وہ حکومت کو مزید مختصر بنانا چاہتے ہیں—فوٹو: رائٹرز

انہوں نے بی بی سی نیوز چینل کو بتایا کہ لیکن اب جب کہ حکومت بندش میں جاچکی ہے، تو مزید برطرفیاں ’یقیناً ممکنہ منظرنامہ‘ ہیں۔

امریکی صدر حکومت کی ایگزیکٹو شاخ کے سربراہ ہیں، اور وہ سینیٹ کی اُس ووٹنگ میں شامل نہیں تھے جس کے نتیجے میں شٹ ڈاؤن ہوا۔

ہیم کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اسے ایک موقع کے طور پر دیکھ سکتے ہیں، کیوں کہ امریکی صدر اس سے پہلے یہ واضح کر چکے ہیں کہ وہ حکومت کو مزید مختصر بنانا چاہتے ہیں۔

عہدہ سنبھالنے کے بعد سے ٹرمپ نے اپنی لاگت کم کرنے کی مہم کے تحت وفاقی ملازمین کی ہزاروں نوکریاں ختم کی ہیں، یہ مہم محکمہ برائے گورنمنٹ ایفیشنسی (ڈی او جی ای) کی جانب سے چل رہی ہے۔

اور پھر پچھلی جمعرات کو وائٹ ہاؤس کی جانب سے زیر گردش ایک میمو میں بھی یہ انتباہ دیا گیا تھا کہ ایجنسیوں کو شٹ ڈاؤن کی صورت میں بڑے پیمانے پر برطرفیوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

وائٹ ہاؤس کی تصدیق

وائٹ ہاؤس کے آفس آف مینجمنٹ اینڈ بجٹ نے ایک یادداشت جاری کی ہے، جس میں تصدیق کی گئی ہے کہ آج رات 12 بجے حکومت بندش کا شکار ہو جائے گی اور اس تعطل کا ذمہ دار ڈیموکریٹس کو ٹھہرایا گیا ہے۔

یادداشت میں لکھا گیا ہے کہ متاثرہ ایجنسیوں کو اب اپنے منصوبے عمل میں لاتے ہوئے ایک منظم طریقے سے شٹ ڈاؤن شروع کرنا چاہیے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ ڈیموکریٹس کب تک اپنی ناقابلِ برداشت پوزیشن پر قائم رہیں گے، جس سے شٹ ڈاؤن کے دورانیے کا اندازہ لگانا مشکل ہے، بہرحال ملازمین کو اپنے اگلے باقاعدہ شیڈول کے مطابق ڈیوٹی پر حاضر ہونا چاہیے تاکہ منظم انداز میں شٹ ڈاؤن کی سرگرمیاں انجام دی جا سکیں۔

یہ یادداشت ٹرمپ انتظامیہ میں آفس آف مینجمنٹ اینڈ بجٹ کے ڈائریکٹر رسل ووٹ کے دستخط کے ساتھ جاری کی گئی ہے۔

وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ پر شٹ ڈاؤن کاؤنٹ ڈاؤن کلاک

— فوٹو:  وائٹ ہاؤس
— فوٹو: وائٹ ہاؤس

وائٹ ہاؤس نے اپنی ویب سائٹ پر شٹ ڈاؤن کاؤنٹ ڈاؤن کلاک جاری کی ہے۔

اسے ’ڈیموکریٹ شٹ ڈاؤن‘ قرار دیتے ہوئے صفحے پر لکھا گیا ہے کہ امریکی عوام ڈیموکریٹس کے اقدامات سے متفق نہیں ہیں۔

شٹ ڈاؤن کے معاملے میں ڈیموکریٹس اور ریپبلکن دونوں ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے ہیں، اگرچہ ریپبلکن کانگریس کے دونوں ایوانوں پر کنٹرول رکھتے ہیں، لیکن سینیٹ میں اخراجات کے بل کو منظور کرنے کے لیے درکار 60 ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 12 نومبر 2025
کارٹون : 11 نومبر 2025