پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو اپنے مسائل حل کرکے آگے بڑھنا چاہیے، رانا ثناء اللہ
وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے وفاقی اتحادی جماعتوں، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے سیاسی اختلافات کو ختم کریں اور سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کے درمیان جاری تنازع سے آگے بڑھیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ کئی دنوں سے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی پنجاب قیادت کے درمیان لفظی جنگ جاری ہے، جو سیلاب زدگان کے لیے معاوضوں اور چولستان کینال منصوبے میں پانی کے حقوق جیسے معاملات پر شروع ہوئی تھی، سندھ میں برسر اقتدار پیپلز پارٹی خاص طور پر پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز کے بیانات پر برہم ہے، حالانکہ اُن ( مریم نواز) کی جماعت (ن) لیگ وفاق میں بھی حکمران ہے۔
گزشتہ روز (7 اکتوبر) پیپلز پارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمٰن نے اپنے اتحادی کو خبردار کیا تھا کہ اگر اُن کی جماعت کی ’ واضح حمایت ‘ نہ ملی تو سینیٹ میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔
اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے سما ٹی وی کے پروگرام ’ ندیم ملک لائیو’ میں کہا کہ ’موجودہ سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ ایک میز پر بیٹھ کر اپنے سیاسی اختلافات حل کرے، اور اُنہیں حل کر کے آگے بڑھنے کا راستہ نکالے۔‘
انہوں نے بظاہر اسٹیبلشمنٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ ادھر سے کوئی مداخلت نہیں ہوگی’ اور مزید کہا کہ اگر سیاستدان اپنے معاملات خود حل کریں تو ’ وہ فریق مدد فراہم کرے گا‘۔
اس دوران اہم شخصیات (وزیراعظم شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری) نے بھی تنازعات کم کرنے کی کوششوں میں کردار ادا کیا ہے، صدر زرداری نے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی سے بھی کہا کہ وہ مفاہمت کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
باخبر ذرائع کے مطابق یہ امکان ہے کہ محسن نقوی متعلقہ اداروں سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ فریقین کو پیچھے ہٹنے پر آمادہ کریں۔
جب رانا ثناء اللہ سے پوچھا گیا کہ آیا یہ تنازع اس حالیہ قیاس آرائی سے متعلق ہے کہ آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر ملک کے صدر بن سکتے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ ’ متعلقہ حلقوں’ نے ایسی تمام باتوں کو پہلے ہی ’رد ‘ کر دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آرمی چیف کا ’ کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں ہے، اور یہ بات بالکل غلط ہے کہ اُن کی کوئی اور نیت یا منصوبہ ہے۔’
سینیٹر نے مزید کہا کہ آرمی چیف اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ’ گھر چلے جائیں گے‘ اور ’ان کا وزیراعظم ہاؤس یا ایوانِ صدر آنے کا کوئی ارادہ نہیں‘۔
آرمی چیف نے بھی خود اس قسم کی قیاس آرائیوں کو مسترد کیا ہے کہ صدارتی یا وزارتی تبدیلیاں ہونے والی ہیں، اور ان افواہوں کو حکومتی نظام کے خلاف سازش کرنے والے عناصر کی کارستانی قرار دیا ہے۔
جولائی میں یہ افواہیں زور پکڑ گئی تھیں کہ صدر آصف علی زرداری مستعفی ہو سکتے ہیں، جس سے ممکنہ طور پر آرمی چیف کے صدر بننے کا راستہ کھل سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایسی خبریں گردش کر رہی تھیں کہ ملک میں پارلیمانی نظام کو ختم کر کے صدارتی نظام لانے پر کام ہو رہا ہے۔
بعض رپورٹس میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ صدر زرداری نے اپنے استعفے کے لیے ایک شرط رکھی ہے کہ اُن کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کو نئے سیٹ اپ میں اہم کردار دیا جائے۔
تاہم، ان تمام افواہوں کو محسن نقوی نے دو مرتبہ اور فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے ’ بے بنیاد ‘ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔













لائیو ٹی وی