مصنوعی ذہانت سے خواتین کی ملازمتوں کو زیادہ خطرہ ہے، اقوام متحدہ کا انتباہ
اقوام متحدہ کی ایک پالیسی اپ ڈیٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت (جنریٹیو اے آئی) کے بڑھتے ہوئے استعمال اور ڈیجیٹلائزیشن کے پھیلاؤ سے مردوں اور عورتوں، دونوں کو ملازمتوں سے محرومی کا سامنا ہو سکتا ہے، تاہم خواتین پر اس کے اثرات کہیں زیادہ شدید ہوں گے، جس سے کام کی جگہوں پر صنفی عدم مساوات میں مزید اضافہ متوقع ہے۔
ڈان اخبار میں شائع اقوام متحدہ کے محکمہ برائے سماجی امور (ڈی ای ایس اے) کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں خواتین کی 27.6 فیصد ملازمتیں ایسی ہیں جو یا تو خودکار نظام کے ذریعے ختم ہو سکتی ہیں یا جن میں جنریٹیو اے آئی (جنریٹو اے آئی) کی وجہ سے بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں، جب کہ مردوں کی ایسی ملازمتوں کا تناسب 21.1 فیصد ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ خطرات ساختی عدم مساوات، ٹیکنالوجی میں موجود صنفی تعصبات اور ڈیجیٹل وسائل تک غیر مساوی رسائی سے جنم لیتے ہیں۔
یہ اثرات زیادہ شدت کے ساتھ ان ممالک میں محسوس کیے جائیں گے جو اعلیٰ یا بالائی درمیانی آمدنی والے ہیں، کیونکہ ان میں خواتین زیادہ تر دفتری کام، تعلیم، اور سرکاری انتظامیہ جیسے شعبوں میں کام کرتی ہیں، جو جنریٹیو اے آئی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شعبے ہیں۔
یہ رجحان تاریخی تسلسل کا حصہ ہے، ڈیجیٹلائزیشن کے ابتدائی مراحل میں، جب زیادہ تر معمولی اور دستی نوعیت کے کام خودکار کیے جا رہے تھے، اس وقت بھی خواتین پر اس کے اثرات مردوں کے مقابلے میں زیادہ شدید تھے۔
2000 سے 2019 کے درمیان امریکا میں کام کرنے والی درمیانی عمر کی خواتین کی جانب سے سنبھالی جانے والی 35 لاکھ دفتری اور اسمبلنگ لائن کی ملازمتیں ختم ہوئیں، جب کہ مردوں کی ایسی ایک لاکھ ملازمتیں متاثر ہوئیں۔
رپورٹ کے مطابق ’ملازمتوں کی محرومی بنیادی چیلنجز میں سے ایک ہے‘، اور جہاں پہلے مرحلے میں خودکار نظام نے کم ہنر والے کام متاثر کیے تھے، وہاں جنریٹیو اے آئی ’متعدد مہارتوں والے کاموں کو بھی خودکار بنانے‘ کی صلاحیت رکھتی ہے، جس سے اثرات زیادہ وسیع ہوں گے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس مسئلے کو مزید سنگین بنانے والا ایک اہم عنصر یہ ہے کہ خود ٹیکنالوجی کے شعبے میں خواتین کی نمائندگی بہت کم ہے۔
رپورٹ کے مطابق خواتین کی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی (ایس ٹی ای ایم) کے شعبوں میں کم شرکت ’صنفی عدم مساوات کو نمایاں طور پر بڑھا سکتی ہے‘، 73 ممالک کے نمونے میں دیکھا گیا کہ ان شعبوں میں خواتین کی مہارت رکھنے والی افرادی قوت کا تناسب ایک تہائی سے بھی کم ہے۔
یہ فرق صرف موجودہ روزگار کے لیے ہی نہیں بلکہ مستقبل کے لیے بھی تشویش ناک ہے، کیونکہ تعصب پر مبنی ڈیٹا سیٹس پر تربیت پانے والے اے آئی نظام ’بھرتی کے عمل اور دیگر اہم فیصلوں میں امتیاز کو جاری رکھنے اور بڑھانے‘ کا خطرہ رکھتے ہیں۔
اگرچہ ٹیکنالوجی کی ٹیموں میں زیادہ تنوع اس مسئلے کا مکمل حل نہیں، لیکن رپورٹ کے مطابق متنوع ٹیمیں تعصب پر مبنی ٹیکنالوجی کے خطرات کو بہتر طور پر شناخت اور کم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان خطرات کے باوجود ڈیجیٹلائزیشن خواتین کے لیے معاشی شمولیت کے نئے مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔
ریموٹ ورک، ٹیلی ورکنگ اور گیگ اکانومی جیسے نئے کام کے ماڈلز خواتین کو روایتی رکاوٹوں بشمول سخت اوقاتِ کار اور گھریلو ذمہ داریوں سے نمٹنے میں مدد دے سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے جامع تجزیے کے مطابق ’ڈیجیٹلائزیشن، زیادہ لچکدار اور اختراعی روزگار کے مواقع فراہم کر کے، خواتین کی معاشی شمولیت اور بااختیاری کو فروغ دے سکتی ہے‘۔












لائیو ٹی وی