• KHI: Clear 18°C
  • LHR: Partly Cloudy 12.8°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.8°C
  • KHI: Clear 18°C
  • LHR: Partly Cloudy 12.8°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.8°C

سرکردہ کاروباری شخصیات نے شرح سود برقرار رکھنے کے فیصلے کو ترقی مخالف قرار دیدیا

شائع October 28, 2025
— فائل فوٹو: رائٹرز
— فائل فوٹو: رائٹرز

غیر ملکی سرمایہ کاروں کے سوا پاکستان کی کاروباری برادری نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے شرحِ سود کو 11 فیصد پر برقرار رکھنے کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس اقدام کو ’ترقی مخالف‘ اور صنعتی مسابقت کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق تجارت اور صنعت کی سرکردہ شخصیات طویل عرصے سے مرکزی بینک سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ شرحِ سود کو سنگل ڈیجٹ (10 فیصد سے کم) پر لایا جائے تاکہ صنعتی سرگرمی بحال ہو اور برآمدات میں اضافہ ممکن ہو، تاہم اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے محتاط رویہ اپنایا اور عالمی اشیا کی غیر مستحکم قیمتوں، تجارتی کشیدگی اور ملکی سپلائی چین میں رکاوٹوں کو معاشی خطرات کے طور پر پیش کیا۔

اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے چیف ایگزیکٹو اور سیکریٹری جنرل ایم عبدالعلیم نے اسٹیٹ بینک کے فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’درآمدات تیزی سے بڑھ رہی ہیں جبکہ برآمدات دباؤ کا شکار ہیں، ہمیں اس مرحلے پر شرح میں کمی کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی تھی، اس لیے استحکام برقرار رکھنا ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے‘۔

اس کے برعکس فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے صدر عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ ستمبر کی 5.6 فیصد افراطِ زر کو مدِنظر رکھتے ہوئے شرحِ سود کو کم کرکے 7 فیصد تک لایا جانا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ شرح سود میں کمی نہ صرف ترقی کو تیز کرے گی بلکہ حکومت کے قرضوں کا بوجھ تقریباً 3.5 کھرب روپے کم کر دے گی، جو مالیاتی دباؤ میں بڑی کمی لائے گی۔

ایف پی سی سی آئی کے سینئر نائب صدر ثاقب فیاض مگوں نے کہا کہ سنگل ڈیجٹ شرحِ سود پیداواری لاگت کم کرے گی، اشیا کو سستا بنائے گی اور مہنگائی کو قابو میں رکھنے میں مدد دے گی، انہوں نے خبردار کیا کہ بلند شرحِ سود مالی رسائی کو محدود کرتی ہے اور ترقی کی رفتار سست کر دیتی ہے۔

کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر محمد ریحان حنیف نے کہا کہ معمولی سی کمی بھی مثبت اشارہ ثابت ہوتی، اگر شرح کو 9 فیصد تک لانا ممکن نہیں تھا تو کم از کم 10 فیصد تک کمی کی جا سکتی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے قرضے اب بھی بلند سطح پر ہیں جبکہ نجی شعبے کو قرضوں کی فراہمی محدود ہے، شرح سود 22 فیصد کی تاریخی بلند سطح سے کم ہونے کے باوجود 11 فیصد کی موجودہ شرح کاروباروں کے لیے بوجھ بنی ہوئی ہے۔

محمد ریحان حنیف نے خبردار کیا کہ صنعتیں پہلے ہی توانائی اور گیس کے تاریخی بلند نرخوں سے نبرد آزما ہیں، اگر حکومت واقعی صنعتی سرگرمیوں کو بحال کرنا، روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور برآمدات بڑھانا چاہتی ہے تو اسے فوری طور پر شرحِ سود اور یوٹیلیٹی اخراجات دونوں کم کرنے ہوں گے۔

کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) کے صدر محمد اکرام راجپوت نے کہا کہ بلند شرحِ سود نے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کے لیے قرض حاصل کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا ہے جس سے پیداوار، برآمدات اور روزگار پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ ’اگر پالیسی سازوں نے صنعت کے خدشات کو نظر انداز کیا تو بحالی مزید مشکل ہو جائے گی‘۔

سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کے صدر احمد عظیم علوی نے کہا کہ وزیر اعظم کی معیشت کو صنعتی مراعات کے ذریعے بحال کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ مسلسل چوتھی بار ہے کہ شرحِ سود میں کمی نہیں کی گئی، جو وزیر اعظم کے معاشی وژن سے متصادم ہے‘۔

پاکستان کیمیکلز اینڈ ڈائیز مرچنٹس ایسوسی ایشن نے کہا کہ سستی مالیاتی سہولت کے بغیر پائیدار ترقی اور سرمایہ کاری کی بحالی ممکن نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 15 دسمبر 2025
کارٹون : 14 دسمبر 2025