جسٹس جہانگیری ڈگری کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ کا سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا
جسٹس جہانگیری ڈگری کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس خادم حسین سومرو نے بنچ میں بیٹھنے سے معذرت کرلی جب کہ بینچ ٹوٹنے کے بعد کیس کی سماعت بغیر کسی کارروائی کے ملتوی کردی گئی۔
ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس خادم حسین سومرو نے جسٹس جہانگیری ڈگری کیس کی سماعت کی۔
اسلام آباد بار کی کیس میں فریق بننے کی متفرق درخواست سماعت کے لیے مقرر تھی، دوران سماعت جسٹس خادم حسین سومرو نے کیس کی سماعت سے معذرت کرلی۔ بینچ ٹوٹ جانے کے بعد کیس کی سماعت بغیر کارروائی ملتوی کردی گئی۔
اپنی درخواست میں آئی بی اے نے مؤقف اختیار کیا کہ زیرِ التوا آئینی درخواست کی منصفانہ اور شفاف سماعت بار کو فریق بنائے بغیر ممکن نہیں، کیونکہ اس کیس میں اٹھائے گئے مسائل قانونی برادری اور قانون کی بالادستی کے لیے انتہائی بنیادی نوعیت کے ہیں۔
وکلا کی اس تنظیم نے مؤقف اپنایا کہ اس کے میمورنڈم آف ایسوسی ایشن (2016) کے مطابق، بار کا مقصد قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی، اور شہری آزادیوں کا تحفظ ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ بار تاریخی طور پر آئینی بالادستی کی جدوجہد میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہے، اس لیے اسے اس معاملے میں سنا جانا چاہیے۔
درخواست میں یاد دلایا گیا کہ بار کے بنیادی فرائض میں اپنے اراکین کو پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی میں سہولت فراہم کرنا، ان کے مفادات کا تحفظ کرنا، اور دیانتداری و پیشہ ورانہ اخلاقیات کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھنا شامل ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ اسلام آباد بار اعلیٰ عدلیہ کو اندرونی یا بیرونی حملوں سے بچانے اور آئین کی بالادستی کے لیے کوشاں رہنے کے اپنے عزم پر قائم ہے۔
کیس کا پس منظر
واضح رہے کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری کی مبینہ جعلی ڈگری سے متعلق ایک شکایت جولائی 2023 میں سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرائی گئی تھی، جبکہ ان کی تقرری کو چیلنج کرنے والی ایک درخواست رواں برس اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی تھی، معاملہ اُس خط کے گرد گھومتا ہے جو پچھلے سال سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگا تھا، جس میں مبینہ طور پر کراچی یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات کی طرف سے جج کی قانون کی ڈگری کا ذکر تھا۔
ایک غیر معمولی پیش رفت میں 16 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد اعظم خان پر مشتمل ڈویژن بینچ نے میاں داؤد ایڈووکیٹ کی جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنے کی درخواست پر سماعت کے بعد تحریری حکم نامہ جاری کردیا تھا۔
19 ستمبر کو جسٹس طارق محمود جہانگیری نے سپریم کورٹ میں خود پیش ہو کر اس فیصلے کو چیلنج کیا تھا، انہوں نے استدعا کی تھی بطور جج کام سے روکنے کا حکم کالعدم اور معطل کیا جائے اور ڈویژن بینچ کو مزید کارروائی سے روکا جائے۔
دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ نے گزشتہ ہفتے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری منسوخی کے خلاف 7 درخواستیں عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کردی تھیں۔
عدالت کے حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ کو اس بات پر یرغمال نہیں بنایا جا سکتا کہ وکلا کی خواہش یا من مانی کے مطابق درخواستوں کی سماعت کس انداز میں کی جائے، حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ساتوں درخواستیں عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کی جاتی ہیں۔
جمعہ 26 ستمبر کو سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس محمد کریم خان آغا اور جسٹس عدنان الکریم میمن پر مشتمل 2 رکنی آئینی بینچ کی جانب سے جاری کیے گئے تحریری حکم نامہ میں عدالت نے کہا کہ جب درخواست گزاروں کے وکیل ایڈووکیٹ ابراہیم سیف الدین کو درخواستیں قابل سماعت ہونے کے سوال پر دلائل دینے کے لیے بلایا گیا تو انہوں نے انکار کردیا اور موقف اپنایا کہ پہلے صلاح الدین احمد اور فیصل صدیقی کے اعتراضات پر فیصلہ کیا جائے، بعد ازاں وہ بھی عدالت چھوڑ کر چلے گئے۔
عدالت نے قرار دیا کہ جب فیصل صدیقی کو بلایا گیا تو انہوں نے بھی یہی موقف اپنایا اور جب ان کی درخواست مسترد ہوئی تو وہ بھی کمرہ عدالت سے نکل گئے، وکیل صلاح الدین احمد نے بھی درخواست قابل سماعت ہونے پر دلائل دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اعتراضات پہلے نمٹائے جائیں، وہ بھی بعد ازاں عدالت سے چلے گئے۔
عدالت کے علم میں آیا کہ دیگر درخواستوں کے وکلا بھی موجود نہیں تھے اور غالباً وہ بھی عدالت چھوڑ گئے تھے، اس بنا پر تمام درخواستیں عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کردی گئیں۔ حکم نامے میں کہا گیا کہ وکلا کو سننے اور درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دینے کا موقع دیا گیا مگر انہوں نے جان بوجھ کر اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔
حکم نامے میں جسٹس طارق جہانگیری کی فریق بننے کی درخواست پر بھی بات کی گئی، عدالت نے کہا کہ انہوں نے اجازت سے عزت و وقار کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا، تاہم وہ کسی درخواست یا لسٹڈ اپلیکیشن پر بات نہ کر سکے اور بعد میں موقع دیے جانے کے باوجود وہ بھی عدالت سے چلے گئے، اس لیے ان کی درخواست بھی عدم پیروی پر خارج کی جاتی ہے۔













لائیو ٹی وی