• KHI: Sunny 16.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 10.7°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.7°C
  • KHI: Sunny 16.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 10.7°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.7°C

کاروباری طبقے کی تجاویز معیشت کیلئے ہمیشہ نقصان دہ کیوں ثابت ہوتی ہیں؟

شائع October 30, 2025

وزیراعظم کے پاس حال ہی میں کاروباری رہنماؤں کا ایک گروپ پہنچا ہے جس نے معیشت کی بحالی میں مدد دینے کے لیے تجاویز پیش کی ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ وزیراعظم نے ان کے درمیان ورکنگ گروپس بنا دیے ہیں جو مزید تفصیلی تجاویز تیار کریں گے۔ جب یہ تجاویز تیار ہو جائیں، تو ان پر نظرثانی کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے۔ اس کے بعد ایک مشاورتی عمل شروع کیا جائے جس میں ان تجاویز کو سول سوسائٹی، سرکاری افسران اور اسٹیٹ بینک کے درمیان گردش میں لایا جائے تاکہ وسیع تر رائے لی جا سکے۔ پھر وزیراعظم کو ایک ایسا کام کرنا چاہیے جو واقعی غیر معمولی ہو ، یعنی کہ ان تجاویز کو پارلیمنٹ کے جائزے کے لیے پیش کیا جائے۔

ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا کی قائمہ کمیٹیوں کو چاہیے کہ وہ ان ورکنگ گروپس کے اراکین کو بلائیں تاکہ وہ ان تجاویز پر بریفنگ دیں۔ اس کے بعد یہی کمیٹیاں ماہرین، تجزیہ کاروں اور مبصرین سے وسیع تر عوامی رائے لیں۔ مجھ جیسے دانشور حضرات بھی خوشی سے ہر تجویز کے فوائد و نقصانات پر تفصیلی تبصرہ فراہم کر دیں گے۔ اور پھر عمل درآمد کا مرحلہ آئے گا، جس کے لیے ایک بین الوزارتی ٹاسک فورس تشکیل دی جائے جس میں ریٹائرڈ سرکاری افسران، ارکانِ پارلیمنٹ، آزاد ماہرین اور کاروباری رہنما شامل ہوں۔ مگر اس سے پہلے اس ٹاسک فورس کے دائرۂ کار (Terms of Reference) طے کرنا ضروری ہوگا، جس کے لیے الگ کمیٹی بننی چاہیے۔

یہاں ایک جملہ کہوں گا، ’جنریشن زی‘ کے زمانے کے تقاضوں کے مطابق۔ اگر کوئی میری بات غلط ثابت کر سکتا ہے تو ضرور کرے۔ پچھلی نصف صدی میں کاروباری برادری کی طرف سے حکومت کو دی جانے والی تجاویز میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں جس نے ملک کے لیے کچھ اچھا ثابت کیا ہو۔ آج جو بھی پائیدار معاشی پالیسیاں موجود ہیں یا ماضی میں جو اقدامات معیشت کے لیے سنگِ میل ثابت ہوئے، ان میں سے کوئی بھی ایسی مثال نہیں جو کاروباری طبقے کی پیش کردہ تجاویز پر مبنی ہو اور جس نے معیشت کو حقیقی طور پر متحرک کیا ہو۔

آپ کے لیے کسی ایک مثال کا سوچنا بھی مشکل ہوگا کیونکہ ایسی کوئی مثال موجود ہی نہیں۔ پاکستان کی کاروباری برادری اس سوچ کے ساتھ بڑی ہوئی ہے کہ منافع کمانے میں ان کی مدد کرنا حکومت کا کام ہے۔ وہ اس سوچ کو کبھی نرمی سے اور کبھی دھمکی کے انداز میں منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ ’ہمیں اپنے کارخانے بند کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا‘، یا کبھی یہ کہ ’ہم اپنی سرمایہ کاری دوسرے ملکوں میں لے جائیں گے‘۔

سادہ سا معاملہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک بھی شخص ایسا نہیں جو کسی دوسرے ملک میں کوئی حقیقی کاروبار کامیابی سے چلا سکے، سوائے شاید کسی رینٹ-اے-کار سروس یا پیزا فرنچائز کے۔ صرف پاکستان میں ہی وہ کم محنت اور زیادہ منافع حاصل کرتے ہیں، جہاں وہ منافع کو نجی بنا لیتے ہیں مگر سرکاری سہولتوں اور سبسڈی کے اخراجات کو سماجی بناتے ہیں ۔ یعنی نقصان عوام کے کھاتے میں۔ اور پھر یہی طبقہ حکومت پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب رہتا ہے کہ اسے ان کے کاروبار کو مزید نفع بخش بنانے میں مدد دینی چاہیے۔ اگر وہ کارخانے بند کرنے کی دھمکی دیں تو ان کی بات کو bluff سمجھ کر نظر انداز کریں۔ وہ اتنی نوکریاں پیدا نہیں کرتے جتنا وہ خود کو کریڈٹ دیتے ہیں۔کم از کم غیر رسمی شعبے یا زراعت کے مقابلے میں تو بالکل نہیں۔ اور اگر وہ کہیں کہ سرمایہ کاری باہر لے جائیں گے، تو انہیں خوش آمدید کہیں۔ جو ایسا کر سکتے ہیں، وہ کب کے کر چکے ہیں۔ جو نہیں کر سکے، وہ کر ہی نہیں سکتے اور انہیں اس بات کا بخوبی علم ہے۔

کاروباری طبقے کو ایک بات ہڈی کے گودے تک سمجھ لینی چاہیے کہ سستی توانائی کا دور ختم ہو چکا ہے۔ پاکستان کے گیس ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، بجلی کا نظام قرضوں اور ادائیگیوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔ توانائی کی قیمتیں کم کرنے کا واحد طریقہ سبسڈی دینا ہے، اور اس وقت اس کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔

سستے قرضوں کا دور بھی ختم ہو چکا ہے۔ برسوں سے یہی کاروباری رہنما اسٹیٹ بینک کی جانب سے فراہم کردہ رعایتی قرضوں کے عادی ہو گئے تھے۔ ان اسکیموں کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال ہوا، خاص طور پر پی ٹی آئی حکومت کے دور میں، جب ان رقوم کو ریئل اسٹیٹ منصوبوں میں لگایا گیا اور پلاٹوں کی فائلوں کی قیمتیں مصنوعی طور پر بڑھا دی گئیں ، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ ہاؤسنگ اور تعمیراتی شعبہ معیشت کی ترقی کا انجن ہے۔

اسی طرزِ عمل کے ردعمل میں آئی ایم ایف نے اسٹیٹ بینک سے یہ اختیار واپس لے لیا کہ وہ ایسے قرضہ جاتی پروگرام چلا سکے۔ یہ ایک درست قدم تھا۔ یہ اسکیمیں معیشت میں چھاپی ہوئی رقم شامل کرتی تھیں، جس کا زیادہ تر فائدہ ارب پتی طبقہ اٹھاتا تھا وہ اس رقم کو ڈالر میں تبدیل کر کے بیرونِ ملک بھجوا دیتے تھے۔ پھر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا افراطِ زر عوام کو متاثر کرتا تھا، وہ عوام جنہیں اس ’ترقی‘ کے دور میں کسی قسم کا فائدہ نہیں پہنچتا تھا۔

بنیادی کہانی وہی ہے؛ اسٹیٹ بینک نے حالیہ تین اجلاسوں میں شرحِ سود کو برقرار رکھا، اور اسے اسی فیصلے پر قائم رہنا چاہیے جب تک بیرونی شعبے کے دباؤ مستقل طور پر کم نہ ہو جائیں۔ شاید بہتر ہوگا کہ اسٹیٹ بینک ایک واضح معیار (threshold) کا اعلان کرے ، مثلاً زرمبادلہ کے ذخائر کم از کم تین ماہ کی درآمدات کے لیے کافی ہوں، بیرونی واجبات ایک ارب ڈالر سے کم ہوں، اور برآمدات و درآمدات کا تناسب دو سہ ماہیوں تک ایک مخصوص حد میں مستحکم رہے ، تب ہی شرح سود میں کمی پر غور کیا جائے۔ اس سے افراطِ زر اور شرحِ سود پر ہونے والی لاحاصل بحثوں کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

کاروباری طبقے کو سمجھنا چاہیے کہ دنیا بدل رہی ہے اور انہیں بھی خود کو بدلنا ہوگا۔ توانائی پر انحصار کرنے والی صنعتیں اس نئی دنیا میں مشکل سے زندہ رہ پائیں گی، جب تک وہ اپنی توانائی کے انتظامات خود نہ کریں۔

قیاس آرائی پر مبنی کاروبار جیسے ریئل اسٹیٹ کو اتنی ہی مہلت ملنی چاہیے کہ وہ اپنی کمزوریوں سے سبق سیکھیں اور حقیقی ویلیو پیدا کر کے منافع کمانے کی راہ اپنائیں۔ مگر کسی بھی صورت میں حکومت کو صنعتوں کے منافع بحال کرنے کی ذمہ داری نہیں اٹھانی چاہیے، یہ وقت ہے کہ مفت خور طبقے کو ایک ٹھوس پیغام دیا جائے کہ موافقت اختیار کریں یا ختم ہوجائیں۔ اب کاروباری طبقہ وہی کرے جو دنیا بھر کے کاروباری کرتے ہیں، محنت کریں اور خطرات مول لیں۔

اس مضمون کو انگریزی میں یہاں پڑھیں۔

خرم حسین

صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@

ان کا ای میل ایڈریس ہے: [email protected]

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 15 دسمبر 2025
کارٹون : 14 دسمبر 2025