’ازدواجی زندگی میں ظلم پر سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ لاکھوں خواتین کی زندگیاں آسان بنائے گا‘

شائع November 1, 2025

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دہائیاں بیت جاتی ہیں لیکن پاکستان میں خواتین کی حیثیت میں بہتر بنانے کے حوالے سے کوئی مثبت پیش رفت سامنے نہیں آتی۔ عوامی کردار ادا کرنے والی خواتین پھر چاہے وہ سوشل میڈیا پر بااثر ہوں یا سیاستدان، قتل کر دی جاتی ہیں مگر اس سلسلے میں کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا نہیں جاتا۔

اگرچہ بظاہر عورتوں کے حق میں قوانین بنائے جاتے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ وہ لوگ جو غلط الزامات کی بنیاد پر عورت پر زنا کا جھوٹا الزام لگاتے ہیں یا وہ مرد جو اپنی بیویوں کو مارتے پیٹتے ہیں، وہ بھی سزا سے بچ نکلتے ہیں۔

بہت سی عورتوں کے لیے موت شاید ان مظالم، پابندیوں اور بے قدری سے نجات کی راہ بن جاتی ہے جو پاکستانی معاشرہ ان پر مسلط کرتا ہے۔

لیکن پھر پاکستان میں کچھ دن ایسے بھی آتے ہیں جب امید کی ایک کرن نظر آتی ہے۔ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک کا تفصیلی فیصلہ ایسا ہی ایک غیر معمولی لمحہ تھا۔ 17 صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں جسٹس ملک نے کئی اہم نکات واضح کیے۔ خاص طور پر یہ کہ شادی میں ظلم و ستم جو علیحدگی (خلع) کی بنیاد بن سکتا ہے، صرف جسمانی تشدد تک محدود نہیں سمجھا جائے گا بلکہ اس کے علاوہ دیگر عوامل بھی ظلم میں شمار کیے جائیں گے۔

دوسرا یہ کہ اگر شوہر پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرتا ہے تو یہ بھی جوڑے کے درمیان علیحدگی کی بنیاد بن سکتا ہے۔

کہانی پشاور سے شروع ہوتی ہے جہاں ایک خاتون نے ابتدائی طور پر فیملی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا۔ 2016ء میں رخصتی کے بعد درخواست گزار اپنے شوہر کے گھر منتقل ہوئیں جہاں ان کے مطابق شوہر اور اس کے گھر والے ان کے ساتھ باقاعدگی سے بدزبانی اور جذباتی طور پر بدسلوکی کیا کرتے تھے۔

انہیں تھپڑ مارتے تھے اور انہیں زخمی کیا گیا لیکن گھر والوں نے کوئی توجہ نہ دی۔ گھر کے مرد ملازمین کو ان کے رہائشی حصے تک رسائی حاصل تھی اور ایک موقع پر انہیں شوہر کے پالتو کتوں کے سامنے پھینک دیا گیا تھا جس نے ان کے دل میں مزید خوف پیدا کیا۔

یہاں تک کہ جب وہ دونوں یعنی ان کے شوہر اور وہ علیحدہ گھر منتقل ہوگئے تب بھی شوہر اکثر دوستوں کے ساتھ رات دو یا تین بجے تک گھر سے باہر رہتا تھا۔ بیوی کے مطابق اکثر اوقات کھانے کے لیے بھی اس کے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا اور ایک موقع ایسا بھی آیا کہ اسے گھر سے نکلنے کے لیے پولیس کو طلب کرنا پڑا۔

دوسری طرف شوہر کا کہنا تھا کہ بیوی کو بیوی بننے میں نہیں بلکہ صرف اپنے کریئر سے دلچسپی تھی۔

شوہر نے دوسری شادی کر لی جس کے بعد متعلقہ خاتون نے فیملی کورٹ میں شادی کے خاتمے یعنی تنسیخِ نکاح کا مقدمہ دائر کیا۔ ظلم و ستم کا شکار بیوی کو اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ فیملی کورٹ نے شواہد کا درست انداز میں جائزہ نہیں لیا تھا۔ جب کچھ لوگوں نے کہا کہ انہوں نے بیوی کے جسم پر زخم دیکھے ہیں تو عدالت نے ان کی گواہی یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ وہ مارپیٹ کے وقت موقع پر موجود نہیں تھے۔

اپنے فیصلے میں جسٹس عائشہ ملک نے دلیرانہ انداز میں نشاندہی کی کہ ماتحت عدالتوں نے بیوی کے بیانات کو اس طرح اہمیت نہیں دی جیسی کہ دینی چاہیے تھی اور اسی بنیاد پر یہ غلط نتیجہ اخذ کیا گیا کہ کوئی تشدد ہوا ہی نہیں۔ مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے بھی اسی فیصلے کو برقرار رکھا۔

تنسیخِ نکاح کی بجائے عورت کو اس کی رضامندی کے بغیر خلع دے دی گئی۔ فیملی کورٹ نے ابتدائی طور پر یہ فیصلہ بھی دیا کہ عورت کو اپنا مہر جوکہ ایک پلاٹ، 30 تولے سونا اور 5 لاکھ روپے تھا چھوڑنا پڑے گا کیونکہ اس نے خلع لی ہے۔

اپنے تاریخی فیصلے میں جسٹس ملک نے سب سے پہلے یہ واضح کیا کہ عدالت بیوی کی رضامندی کے بغیر خلع نہیں دے سکتی۔ اُنہوں نے اشارہ کیا کہ فیملی کورٹ نے غلطی کی تھی جب اُس نے شادی کو ختم کرنے کے بجائے خلع دے دی۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ ظلم جو متعلقہ قانون (Dissolution of Muslim Marriages Act, 1939) کے تحت ایک قانونی تقاضا ہے، صرف جسمانی تشدد تک محدود نہیں بلکہ اس میں ‘جسمانی نقصان جیسے تھپڑ مارنا، مارپیٹ یا حملہ، ذہنی ظلم جیسے تذلیل، گالی گلوچ یا بے بنیاد الزاماتِ بے وفائی، جذباتی ظلم جیسے بے رخی یا لاپرواہی اور بعض اوقات ازدواجی زندگی کا مجموعی ماحول جیسے گھر میں سسرال کی جانب سے جبر جو شوہر کے رویے سے برداشت یا فروغ پاتا ہو’ بھی شامل ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے تسلیم کیا کہ اس کیس میں ظلم، بغیر اجازت دوسری شادی کرنا اور نان و نفقہ ادا نہ کرنا تھا۔ یہ سب Dissolution of Muslim Marriages Act کے تحت شادی ختم کرنے کی وجوہات بنتی ہیں۔

فیصلے میں وضاحت کی گئی کہ اگر شوہر دوسری شادی کے لیے بیوی کی رضامندی حاصل نہیں کرتا تو اُسے یونین کونسل میں درخواست دینی چاہیے جو بعد میں ثالثی کونسل تشکیل دے گی۔ منطقی طور پر اگر یہ عمل نہ کیا جائے تو دوسری شادی قانون کی خلاف ورزی شمار ہوگی۔

یہ فیصلہ امید ہے کہ پاکستان میں مظلوم خواتین کے لیے شادی کے خاتمے کا حصول آسان بنا دیا جائے گا اور وہ اپنا حقِ مہر چھوڑے بغیر انصاف حاصل کر سکیں گی۔ اس مقدمے میں بیوی کا اپنے حقوق کو جاننا اور اُنہیں حاصل کرنے کے لیے بہادری سے جدوجہد کرنا قابلِ تحسین ہے۔

خاتون کی ہمت اور اس تاریخی فیصلے کے باعث، اب پاکستان کی لاکھوں خواتین کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ شوہر کے ظلم، لاپروائی یا دوسری شادی کی صورت میں خلع پر مجبور ہونے کے بجائے قانونی طور پر فسخِ نکاح کا مطالبہ کر سکیں۔

جیسے جیسے شادیوں کا موسم شروع ہوتا ہے، تمام خواتین اور اُن کے اہلِ خانہ کو اس بات پر زور دینا چاہیے کہ نکاح نامے میں درج حقوق اور شرائط پر بھرپور توجہ دی جائے کیونکہ یہی ان کے ظالم شوہروں سے قانونی اور مذہبی تحفظ کی ضامن ہیں۔

یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

رافعہ ذکریہ

رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 11 نومبر 2025
کارٹون : 10 نومبر 2025