ستارہ نگلنے والے بلیک ہول سے تاریخ کی سب سے طاقتور چمک کا اخراج

شائع November 5, 2025
— فوٹو: رائٹرز
— فوٹو: رائٹرز

سائنس دانوں نے ایک انتہائی طاقتور اور غیر معمولی چمک کا اخراج دیکھا ہے جو ایک عظیم‌الجثہ بلیک ہول سے خارج ہوئی، ماہرین کے مطابق یہ چمک اُس وقت پیدا ہوئی جب ایک بہت بڑا ستارہ بلیک ہول کے زیادہ قریب آگیا اور اس کی کششِ ثقل نے اُسے چیر کر نگل لیا۔

ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ چمک اپنی شدت کے عروج پر سورج سے 100 کھرب گنا زیادہ روشن تھی، یہ بلیک ہول ایک کہکشاں کے مرکز میں موجود ہے جو زمین سے تقریباً 11 ارب نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ (ایک نوری سال وہ فاصلہ ہے جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے، یعنی تقریباً 9.5 کھرب کلومیٹر)

بلیک ہول انتہائی گھنے اجسام ہوتے ہیں جن کی کششِ ثقل اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ روشنی بھی اس سے باہر نہیں نکل سکتی، خیال کیا جاتا ہے کہ تقریباً ہر کہکشاں کے مرکز میں ایک بلیک ہول موجود ہوتا ہے۔

اس تحقیق میں دیکھا گیا کہ یہ بلیک ہول سورج کے مقابلے میں تقریباً 30 کروڑ گنا زیادہ بھاری ہے ، یعنی ہماری کہکشاں (ملکی وے) کے بلیک ہول سے بھی کہیں زیادہ بڑا، جس کا وزن سورج سے تقریباً 40 لاکھ گنا زیادہ ہے۔

ماہرین کے مطابق چمک کی سب سے ممکنہ وجہ یہ ہے کہ ایک بہت بڑا ستارہ بلیک ہول کے قریب پہنچ گیا، جب اُس ستارے کا مواد بلیک ہول کے اندر کھنچنے لگا تو اُس کے ’نقطۂ عدمِ واپسی‘ تک پہنچنے پر توانائی کا ایک زبردست اخراج ہوا۔

تحقیق کے مطابق یہ ستارہ کم از کم سورج سے 30 گنا بڑا تھا، اور ممکنہ طور پر 200 گنا زیادہ بھاری بھی ہو سکتا تھا، امکان ہے کہ وہ بلیک ہول کے گرد گردش کرنے والے ستاروں کے ایک گروہ کا حصہ تھا، لیکن کسی دوسرے آسمانی جسم سے تصادم کے باعث اپنے اصل مدار سے ہٹ کر بلیک ہول کے بہت قریب جا پہنچا۔

تحقیق کے مرکزی مصنف اور کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (کالٹیک) کے ماہر فلکیات میتھیو گراہم کے مطابق ’یہ ممکن ہے کہ ستارہ کسی زیادہ بڑے جسم سے ٹکرا گیا ہو، جس نے اسے ایک لمبے بیضوی مدار میں دھکیل دیا، اور وہ اپنے قریب ترین مقام پر بلیک ہول کے انتہائی قریب پہنچ گیا، جہاں سے واپسی ممکن نہیں‘۔

جب ستارہ بلیک ہول کے قریب پہنچا تو اس پر کششِ ثقل کا اثر اتنا زیادہ ہوا کہ وہ کھنچ کر لمبا اور باریک ہوگیا، اس عمل کو ماہرین ’سپگیٹیفکیشن‘ کہتے ہیں، بعد ازاں وہ مواد بلیک ہول کے گرد چکر لگاتا ہوا اندر گرنے لگا، اور اسی دوران یہ انتہائی روشن چمک پیدا ہوئی۔

یہ ستارہ غیر معمولی طور پر بڑا تھا، ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حجم کے ستارے نہایت نایاب ہوتے ہیں، کیونکہ زیادہ تر چھوٹے ستارے بنتے ہیں، اور بڑے ستارے اپنی مختصر عمر کے باعث جلد ختم ہو جاتے ہیں۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ بلیک ہول کے قریب موجود کچھ ستارے وہاں کے گرد گھومتے ہوئے مادے کو جذب کرکے غیر معمولی طور پر بڑے ہو سکتے ہیں۔

یہ منظر امریکا کی ریاستوں کیلی فورنیا، ایریزونا اور ہوائی میں موجود مختلف دوربینوں سے دیکھا گیا، ماہرین نے دیگر ممکنہ وجوہات جیسے کہ ستارے کا دھماکے سے پھٹنا، بلیک ہول سے نکلنے والی تیز مادے کی دھار، یا گریویٹیشنل لینسنگ (روشنی کے جھکنے کا عمل) کو بھی جانچا، لیکن کوئی بھی نظریہ مشاہدات سے مطابقت نہیں رکھتا۔

چونکہ یہ کہکشاں زمین سے 11 ارب نوری سال دور ہے، اس لیے سائنس دان دراصل ماضی کے اُس وقت کو دیکھ رہے ہیں جب کائنات اپنی ابتدائی حالت میں تھی۔

کارٹون

کارٹون : 15 نومبر 2025
کارٹون : 14 نومبر 2025