پاکستانی وفد افغان طالبان سے مذاکرات کیلئے استنبول روانہ، وزیرِ دفاع کی تصدیق
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے تصدیق کی ہے کہ پاکستانی وفد افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے استنبول روانہ ہو چکا ہے، یہ مذاکرات کل سے شروع ہوں گے، جن کا مقصد دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان جاری کشیدگی کا حل تلاش کرنا ہے۔
واضح رہے کہ 25 اکتوبر کو استنبول میں پاکستانی اور افغان طالبان وفود کے درمیان مذاکرات کے دوسرے دور کا آغاز کئی دنوں کی سرحدی جھڑپوں کے بعد ہوا تھا، تاہم کابل سے ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بارے میں اسلام آباد کے دیرینہ خدشات بدستور موجود رہے، جس کے باعث مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔
پاکستان نے 29 اکتوبر کو اعلان کیا تھا کہ ’مذاکرات ناکام‘ ہو چکے ہیں اور اس کے مذاکرات کار وطن واپس آنے کی تیاری کر رہے ہیں، جس کے بعد ترکیہ اور قطر نے مذاکراتی عمل کو ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں دوسری بار بحال کرایا۔
بعد ازاں، مذاکرات کے نتیجے میں 3 نکاتی مفاہمت سامنے آئی تھی، جس میں جنگ بندی کے تسلسل پر اتفاق، قیام امن کے لیے نگرانی و توثیقی نظام کا قیام اور خلاف ورزیوں پر سزا کا طریقہ کار، اس نظام کی عملی تفصیلات دونوں فریقین کے سینئر نمائندے 6 نومبر کو استنبول میں ہونے والی شیڈول ملاقات میں طے کریں گے۔
آج پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نےکہا کہ پاکستانی وفد آج روانہ ہو گیا اور مذاکرات کل صبح شروع ہوں گے، امید ہے افغانستان دانشمندی سے کام لے گا اور خطے میں امن بحال ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ایجنڈا صرف ایک نکتے پر مشتمل ہے، افغانستان اپنی سرزمین سے پاکستان پر ہونے والے حملوں کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے، جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا مثبت پیش رفت کی امید ہے، تو خواجہ آصف نے کہا کہ مذاکرات صرف اسی وقت کیے جاتے ہیں جب پیش رفت کے امکانات موجود ہوں، ورنہ یہ وقت کا ضیاع ہیں۔
27ویں آئینی ترمیم
علیحدہ گفتگو میں وزیرِ دفاع نےکہا کہ وہ مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم سے متعلق تحفظات یا زیرِ بحث نکات کی تفصیلات فی الحال ظاہر نہیں کر سکتے، تاہم انہوں نے بتایا کہ مسودے کو آئندہ ہفتے ’حتمی شکل‘ دے دی جائے گی، جس کے بعد اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو ترمیم پر اپنی رائے دینے کا مکمل حق حاصل ہے اور حکومت دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی اسی جذبے کے ساتھ مشاورت کر رہی ہے تاکہ ان کی رائے اور تجاویز حاصل کی جا سکیں۔
تاہم وزیرِ دفاع نے آئندہ آئینی ترمیم میں ممکنہ تبدیلیوں سے متعلق افواہوں پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
سرحدی جھڑپیں اور مذاکرات
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں شدید کشیدگی دیکھنے میں آئی، جس میں سرحدی جھڑپیں، جوابی بیانات اور الزامات شامل تھے۔
یہ کشیدگی 11 اکتوبر کی رات اس وقت شروع ہوئی تھی، جب افغانستان کی جانب سے پاکستان پر حملہ کیا گیا تھا۔
اسلام آباد کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ طالبان اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں کے لیے استعمال ہونے سے روکے، طالبان اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین دہشت گردوں کے استعمال کے لیے نہیں دیتے۔
11 اکتوبر کی ابتدائی جھڑپ کے بعد پاک-افغان سرحد پر مزید متعدد جھڑپیں ہوئیں، جبکہ پاکستانی فورسز کی کارروائیوں میں افغانستان میں گل بہادر گروپ کے کیمپ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
بالآخر دونوں ممالک مذاکرات کے لیے دوحہ میں اکٹھے ہوئے، جہاں ایک عارضی جنگ بندی پر اتفاق ہوا اور یہ طے پایا کہ پائیدار امن و استحکام کے لیے مزید بات چیت استنبول میں جاری رکھی جائے گی۔
ترکیہ اور قطر کے پاکستان کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں، جبکہ قطر نے افغان طالبان اور نیٹو فورسز کے درمیان مذاکرات میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔













لائیو ٹی وی