• KHI: Partly Cloudy 24.1°C
  • LHR: Sunny 19.6°C
  • ISB: Partly Cloudy 18.6°C
  • KHI: Partly Cloudy 24.1°C
  • LHR: Sunny 19.6°C
  • ISB: Partly Cloudy 18.6°C

27ویں آئینی ترمیم آئندہ ہفتے پارلیمنٹ میں منظوری کیلئے پیش کیے جانے کا امکان

شائع November 6, 2025
— فائل فوٹو: اسکرین گریب
— فائل فوٹو: اسکرین گریب

وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم پر اتفاقِ رائے 2 سے 3 دن میں متوقع ہے، جس کے بعد یہ قانون سازی آئندہ ہفتے پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی کو یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے کہ 18ویں ترمیم کو نئی قانون سازی کے ذریعے منسوخ نہیں کیا جائے گا۔

نجی چینل ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ حکومت دفاعی افواج سے متعلق قوانین میں ترامیم پر غور کر رہی ہے، اور اس سلسلے میں مشاورت جاری ہے کیونکہ حکومت آئینی تبدیلیوں پر غور کر رہی ہے، انہوں نے زور دیا کہ آئین کے آرٹیکل 243 میں ترمیم پر بات چیت جاری ہے کیونکہ ’دفاعی ضروریات بدل گئی ہیں‘۔

آئین کا آرٹیکل 243 یہ واضح کرتا ہے کہ وفاقی حکومت ’مسلح افواج پر اختیار اور کمان‘ رکھتی ہے اور ’مسلح افواج کی سپریم کمان صدرِ مملکت کے ہاتھ میں ہوگی‘۔

اس سے قبل پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ وہ 27ویں ترمیم سے متعلق تحفظات یا مشاورت کی تفصیلات شیئر نہیں کر سکتے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو اپنی رائے دینے کا پورا حق ہے اور حکومت دیگر جماعتوں سے بھی اسی جذبے کے تحت مشاورت کر رہی ہے، تاکہ ان کی رائے شامل کی جا سکے۔

’قیاس آرائیاں‘

دوسری جانب قومی اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کے نکات پر جواب دیتے ہوئے وزیرِ پارلیمانی امور طارق فضل چوہدری نے ’منفی اور جھوٹے پروپیگنڈے‘ کو ختم کرنے پر زور دیا اور کہا کہ ’قیاس آرائیوں اور اندازوں‘ کی بنیاد پر 27ویں ترمیم کو متنازع بنانے کی کوششیں افسوسناک ہیں کیونکہ اب تک اس کا سرکاری مسودہ منظرِ عام پر نہیں آیا۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی تعلیمی اداروں یا بورڈز پر کنٹرول حاصل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، ’ہم صرف یکساں نصاب کی بات کر رہے ہیں‘۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جائے گا جو وفاق، صوبوں یا ان کے باہمی تعلقات کو کمزور کرے، ’مقصد بہتر طرزِ حکمرانی، دفاع کو مضبوط بنانا اور وفاق و صوبوں کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم کرنا ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ اتحادیوں اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے گا اور قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) سے متعلق معاملات مشاورت کے ذریعے طے ہوں گے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ گزشتہ سال منظور کی گئی 26ویں ترمیم کو بھی عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیا گیا تھا، حالانکہ 27ویں ترمیم کے تحت ایک علیحدہ آئینی عدالت کا قیام مقدمات کے بوجھ کو کم کرنے میں مدد دے گا۔

انہوں نے یاد دلایا کہ ایسی عدالت کے قیام پر 2006 میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے مابین طے پانے والے ’چارٹر آف ڈیموکریسی‘ میں اتفاق کیا گیا تھا۔

انہوں نے زور دیا کہ آئینی ترامیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے، مکمل اتفاق نہیں، اور کہا کہ آئین کی روح برقرار رکھی جائے گی۔

اتفاقِ رائے کی اپیل

اس سے قبل، چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ آئینی ترامیم اتفاقِ رائے سے منظور کی جانی چاہئیں، جیسا کہ ہمسایہ ملک میں کیا گیا تھا۔

انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ 27ویں ترمیم آئین کی روح کے منافی ہوگی اور حکومت کو خبردار کیا کہ وہ قوم میں تقسیم پیدا نہ کرے، یہ عدلیہ کی آزادی کو مزید خطرے میں ڈال دے گی۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ حکومت اس ترمیم کو لا کر وفاق کو خطرے میں ڈال رہی ہے، کیونکہ وہ آبادی اور تعلیم جیسے امور دوبارہ وفاق کے ماتحت لانا چاہتی ہے۔

انہوں نے نشان دہی کی کہ ’یہ موضوعات 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو منتقل کیے گئے تھے’، انہوں نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ 27ویں ترمیم کا مسودہ لیک کیوں ہوا؟

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے محمود خان اچکزئی کو قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف کے طور پر نامزد کیا ہے، اور 72 ارکانِ اسمبلی کے دستخطوں کے ساتھ ان کا نام اسپیکر کے دفتر میں جمع کرایا گیا ہے، قواعد کے مطابق، اسپیکر کو قائدِ حزبِ اختلاف کا اعلان کرنا چاہیے، ورنہ میں خود محمود اچکزئی سے کہوں گا کہ وہ یہ نشست سنبھال لیں۔

بیرسٹر گوہر نے 2022 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا، جس میں حکومت کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ 45 دن کے اندر وہ قانون سازی کرے جس کے تحت فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ شہریوں کو سویلین عدلیہ میں اپیل کا حق دیا جائے اور اس فیصلے پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا۔

اپنی تقریر میں ملک عامر ڈوگر نے بھی مطالبہ کیا کہ چیئر فوراً قواعد کے مطابق محمود اچکزئی کو قائدِ حزبِ اختلاف قرار دے۔

اجلاس کی صدارت کرنے والے ڈپٹی اسپیکر غلام مصطفیٰ نے تجویز دی کہ اپوزیشن اسپیکر کے دفتر جا کر اس معاملے پر بات کرے، کیونکہ اس حوالے سے مقدمہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔

صحافیوں کا واک آؤٹ

بدھ کے روز قومی اسمبلی کی کارروائی کور کرنے والے صحافیوں نے بھی سوال و جواب کے سیشن سے قبل پریس گیلری سے واک آؤٹ کیا تاکہ مختلف ٹی وی چینلز سے صحافیوں کی برطرفیوں اور میڈیا پر پابندیوں کے خلاف احتجاج کیا جا سکے۔

ڈپٹی اسپیکر غلام مصطفیٰ شاہ نے وزیرِ اطلاعات عطااللہ تارڑ کو احتجاج کرنے والے صحافیوں سے مذاکرات کے لیے بھیجا۔

اس موقع پر پارلیمنٹری رپورٹرز ایسوسی ایشن (پی آر اے) کے ایم بی سومرو نے مختلف میڈیا اداروں سے صحافیوں کی حالیہ برطرفیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور زور دیا کہ حکومت کی جانب سے روزنامہ ’ڈان‘ کو اشتہارات کی معطلی کا بھی نوٹس لیا جائے۔

بعد میں قومی اسمبلی کے فلور پر خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اطلاعات عطااللہ تارڑ نے بغیر پیشگی اطلاع یا معقول جواز کے متعدد میڈیا اداروں کی جانب سے صحافیوں کی برطرفیوں پر تشویش ظاہر کی، انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر اگلے ہفتے میڈیا مالکان کے ساتھ ملاقات میں بات چیت کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے یقینی بنایا ہے کہ میڈیا ہاؤسز کو بروقت ادائیگیاں کی جائیں، اور ہم توقع کرتے ہیں کہ ان مالی فوائد کا فائدہ کام کرنے والے صحافیوں اور میڈیا اسٹاف تک بھی پہنچے گا۔

عطااللہ تارڑ نے بتایا کہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے وفد نے ان سے ملاقات کر کے اپنے مطالبات کا چارٹر پیش کیا ہے، جن پر پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے) اور آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی (اے پی این ایس) سمیت میڈیا مالکان کے ساتھ آئندہ اجلاس میں بات چیت کی جائے گی تاکہ دیرپا حل نکالا جا سکے۔

کارٹون

کارٹون : 15 دسمبر 2025
کارٹون : 14 دسمبر 2025