• KHI: Sunny 16.1°C
  • LHR: Partly Cloudy 10.7°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.1°C
  • KHI: Sunny 16.1°C
  • LHR: Partly Cloudy 10.7°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.1°C

فوجی تقرریوں سے عدلیہ کی آزادی تک: ’27ویں ترمیم اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کی کوشش ہے‘

شائع November 10, 2025

ہفتے کو سینیٹ کے خصوصی اجلاس کے دوران پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے والے 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے کا ماہرین جائزہ لیں گے اور اس پر تفصیلی تنقید کریں گے لیکن مجھ جیسے ایک عام آدمی کے لیے اس ترمیم کا مقصد چیزوں کو ویسا ہی برقرار رکھنا ہے جیسے کہ وہ پہلے تھیں اور یہ بھی لگتا ہے کہ جیسے صوبے ترمیم کے خلاف مزاحمت کرنے کا صرف ڈراما کر رہے ہیں۔

یہ سوچ وسیع طور پر انہیں نظریات پر مبنی ہے جن کی بنیاد پر 26ویں آئینی ترمیم منظور کی گئی تھی اور یہ 26ویں ترمیم کے عمل میں رہ جانے والی تمام خامیوں کو دور کرتی ہے۔ مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ’جوڈیشل ایکٹوازم‘ کی مدت ختم ہوجائے جہاں کچھ ججز کو سیاسی وجوہات کی بنیاد پر اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے دیکھا جاتا تھا۔ اب عدلیہ خود کو کہیں زیادہ محدود اور پابند محسوس کرے گی۔

یہ ستم ظریفی ہے کہ عدلیہ کی آزادی کو محدود کرنے کا اقدام دراصل خود چند انہیں ججز کی مدد سے کیا جائے گا جنہوں نے کبھی آزاد عدلیہ کا مطالبہ کیا تھا۔ ایک طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلے کا نظام بنایا جائے۔ (میرے ذہن میں تو پہلے ہی ایک فہرست بننے لگی ہے، مثال کے طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے وہ جج جو وفاقی دارالحکومت جیسے پُرسکون اور خوشگوار ماحول میں کام کرتے ہیں ان کا تبادلہ زیادہ غیر مستحکم، شورش زدہ اور کم دلکش مقامات کی طرف کیا جائے گا۔)

سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں جو عدلیہ اتحاد کے دن تھے وہ اب ختم ہوچکے ہیں اور اب بس وہ ماضی کے آئینے میں ایک یاد بن کر رہ گئے ہیں۔ آج جب ہم عدلیہ کے پَر کترے جانے پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں تو شاید افتخار چوہدری کے دور کی غلطیوں کا ذکر کرنا مناسب نہ لگے۔ مگر آخر کوئی اُنہیں بھلا کیسے سکتا ہے؟

یہ وہ کوتاہیاں تھیں جن کا اختتام عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک ناجائز اتحاد میں ہوا جو چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور کی شناخت بنا۔ 2008ء کے انتخابات اور جمہوریت کے دوبارہ قیام کے بعد 2016ء میں وہ زوال شروع ہوا جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے جبکہ سیاسی طبقے کے کچھ عناصر اس میں خوش دلی سے شریک رہے۔

جو لوگ قانون کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتے ہیں، وہ پہلے ہی ترمیم کے اس حصے پر بات کر رہے ہیں، اس لیے میں دیگر حصوں کی جانب توجہ دوں گا جیسے کہ آئین کے آرٹیکل 243 میں تبدیلی جو فوجی تقرریوں کے حوالے سے ہے۔

آرٹیکل 243 میں تبدیلی کے مطابق، رواں ماہ موجودہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ اس عہدے کو ختم کر دیا جائے گا۔ اس وقت موجودہ آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر چیف آف آرمی اسٹاف اور چیف آف ڈیفنس فورسز کے نئے دوہرے عہدےکو سنبھالیں گے۔

ترمیم میں کہا گیا ہے کہ فیلڈ مارشل کا عہدہ تاحیات برقرار رہے گا۔ جہاں تک میری معلومات ہیں تو یہ عہدہ ویسے ہی تاحیات برقرار رہتا ہے، لہٰذا یہ بات محض دہرائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ چیف آف آرمی اسٹاف و چیف آف ڈیفنس فورسز کی سفارش پر وزیر اعظم کی جانب سے نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ کے کمانڈر کو تعینات کیا جائے گا۔

اگرچہ یہ سرکاری طور پر نہیں بتایا گیا ہے لیکن ممکنہ طور پر یہ عہدہ فور اسٹار جنرل کے پاس ہوگا۔ اس سے اعلیٰ درجے کے تھری اسٹار جرنیلوں کو کچھ حاصل کرنے کی ترغیب ملے، خاص طور پر چونکہ ان کے باس کی مدتِ ملازمت 5 سال ہوتی ہے جسے وسعت دی جا سکتی ہے۔

بنیادی طور پر، یہ تمام پیش رفت موجودہ حالات کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے اور اسٹیٹس کو کو مستحکم کرنے کے بارے میں ہے۔ ان تبدیلیوں کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ رواں سال مئی میں ’بھارت کے ساتھ جنگ میں فتح‘ کی وجہ سے آرٹیکل 243 کو اپ ڈیٹ کیا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ تبدیلیاں جدید جنگ کے تقاضوں کے بارے میں سیکھے جانے والے عملی ’اسباق‘ کی عکاسی کرتی ہیں۔

اس پس منظر میں کہ جہاں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا اصرار ہے کہ انہوں نے آپریشن سندور ابھی کے لیے صرف ‘معطل’ کیا ہے اور یہ ختم نہیں ہوا، کافی قیاس آرائیاں ہورہی ہیں کہ وفاق کی جانب سے قابلِ تقسیم فنڈ میں صوبوں کا حصہ جیسا کہ نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ (این ایف سی) میں درج ہے، میں 10 فیصد کٹوتی کی جاسکتی ہے تاکہ اضافی دفاعی ضروریات کے لیے فنڈز فراہم کیے جا سکیں۔

یہ بھی کہا گیا کہ تعلیم، آبادی و بہبود اور منصوبہ بندی کی وزارتیں جو 2010ء میں 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو منتقل کی گئی تھیں، بڑے بجٹ کے ساتھ عطیہ دہندگان کے تعاون سے وفاقی حکومت کو واپس مل جائیں گے۔ ان دو وزارتوں کے وفاق کے ماتحت واپس آنے اور این ایف سی میں صوبوں کے حصے کے تحفظ کے خاتمے پر، لگتا یہی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے سخت مؤقف اختیار کیا ہے اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے مطابق، مسلم لیگ (ن) نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی کہ ایسے امور پر فی الحال ترمیم نہیں کی جائے گی جن پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا ہے۔

اگرچہ پی پی پی نے اپنے حصے میں آئینی (ادارہ جاتی) کٹوتی کو روکنے میں کامیابی حاصل کی ہے لیکن یہ حیرت کا باعث نہیں ہوگا اگر اضافی 500 ارب روپے جو دفاعی ضروریات کے لیے درکار ہیں، صوبوں بشمول سندھ اور بلوچستان (جہاں بھی پی پی پی دعویٰ کرتی ہے کہ وہ صوبائی حکومت کی قیادت کررہی ہے) کی طرف سے رضاکارانہ طور پر فراہم کیے جائیں خاص طور پر جب مشرقی اور مغربی سرحدوں پر سلامتی کے خطرات واضح طور پر موجود ہیں۔

خیبر پختونخوا کی حکومت کے رویے کو نئے جارحانہ وزیرِ اعلیٰ کی تقرری کے بعد بیان کرنا مشکل ہے۔ اگر سندھ اور بلوچستان اپنا حصہ فراہم کرتے ہیں تو پنجاب بھی اسی راہ پر گامزن ہوگا کیونکہ وہاں تو مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔

یہ سچ ہے کہ جمہوری قوتیں اور وہ لوگ جو عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں، اس وقت مایوس ہوں گے کہ جب یہ ترمیم پارلیمنٹ سے منظور ہو جائے گی (اور یقین رکھیں کہ یہ ضرور منظور ہوگی) لیکن یہ صورت حال ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ اقتدار بلآخر فوجی قوت سے آتا ہے۔

ماضی میں آمرانہ دور، چند سال (1977ء) یا چند ماہ (1999ء) بڑی یا چھوٹی فوجی ناکامیوں کے بعد آئے تھے۔ اب ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کی فتح کی توثیق کے بعد سے ہائبرڈ سیٹ اپ (یہ اصطلاح وزیر دفاع خواجہ آصف نے استعمال کی) کے مرکزی کردار کو زیادہ طاقت اور وسائل دینے پر زور دیا جارہا ہے اور امکان یہی ہے کہ اسے منظور کر دیا جائے گا۔

صوبوں کی جانب سے علامتی مزاحمت کے باوجود یہی حقیقت ہے۔ اور افسوس کے ساتھ ہم میں سے بعض کے لیے یہ صورت حال مستقبل قریب تک ایسی ہی رہنے والی ہے۔ اگر کوئی ڈرامائی موڑ نہیں آتا تو کوئی تبدیلی کم از کم فی الحال ممکن نہیں اور نہ ہی مستقبل میں کوئی امید نظر آتی ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عباس ناصر

عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abbasnasir59@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 15 دسمبر 2025
کارٹون : 14 دسمبر 2025