ہنگرین نژاد برطانوی مصنف ڈیوڈ سالے نے اپنے ناول ’فلیش‘ پر بکر ایوارڈ جیت لیا
ڈیوڈ سالے نے اپنے ناول ’فلیش‘ پر بُکر انعام جیت لیا، یوں وہ پہلے ہنگرین نژاد برطانوی مصنف بن گئے جنہوں نے انگریزی زبان کی دنیا کے اس اعلیٰ ترین ادبی اعزاز کو حاصل کیا۔
ڈان اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ ناول اپنی سادہ، مختصر اور غیر ضروری تفصیل سے پاک نثر کے لیے جانا جاتا ہے، کہانی ایک ایسے شخص کے گرد گھومتی ہے جو کئی دہائیوں تک اپنے قابو سے باہر ہونے والے حالات کے بھنور میں پھنس جاتا ہے، کتاب میں اس کے ہنگری کے ایک غریب محلے سے لے کر لندن کے امیر طبقے کے محل نما گھروں تک پہنچنے کے سفر کو بیان کیا گیا ہے۔
ایوارڈ کے منتظمین نے لندن میں منعقدہ تقریب کے موقع پر اپنے بیان میں کہا کہ یہ ایک ایسی تحریر ہے جو طبقاتی فرق، طاقت، قربت، ہجرت اور مردانگی جیسے موضوعات پر غور کرتی ہے۔ فلیش ایک شخص کی زندگی کا پُراثر عکس ہے، اور ان تجربات کا مطالعہ جو پوری زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
بُکر انعام کے فاتح کو 50 ہزار پاؤنڈ (تقریباً 67 ہزار امریکی ڈالر) دیے جاتے ہیں، جب کہ شارٹ لسٹ میں شامل مصنفین اور مترجمین کو ڈھائی ہزار پاؤنڈ فی کس انعام ملتا ہے۔
اس کے علاوہ، یہ مصنفین بین الاقوامی شہرت اور کتابوں کی فروخت میں نمایاں اضافے سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔
ڈیوڈ سالے نے بی بی سی ریڈیو سے گفتگو میں کہا کہ اگرچہ میرے والد ہنگرین ہیں، لیکن میں نے خود کو کبھی مکمل طور پر ہنگری کا حصہ محسوس نہیں کیا، شاید میں وہاں ہمیشہ کچھ اجنبی سا رہا، برطانیہ اور لندن سے برسوں دور رہنے کے بعد، وہاں کے بارے میں بھی میرے احساسات کچھ ایسے ہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں دراصل ایک ایسی کتاب لکھنا چاہتا تھا، جو ہنگری اور لندن کے درمیان پھیلی ہو، اور جس میں مرکزی کردار خود کو کسی بھی جگہ مکمل طور پر گھر جیسا محسوس نہ کرے۔
یہ ناول سالے کی چھٹی فکشن کتاب ہے، وہ اس سے پہلے 2016 میں اپنے ناول ’آل دیٹ مین اِز‘ (All That Man Is) پر بُکر شارٹ لسٹ میں شامل ہو چکے ہیں، جس میں 9 مردوں کی زندگی کے مختلف مراحل کو بیان کیا گیا تھا۔
اس سال کے ججوں کے سربراہ راؤڈی ڈوئل نے کہا کہ ہم نے اس جیسی کوئی تحریر پہلے کبھی نہیں پڑھی، کئی پہلوؤں سے یہ ایک گہری کتاب ہے، لیکن پڑھنے میں انتہائی مسحور کن ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں نے شاید ہی کوئی ایسا ناول پڑھا ہو، جو صفحے کے خالی حصے کا اتنا خوبصورت استعمال کرتا ہو، ایسا لگتا ہے جیسے مصنف قاری کو دعوت دے رہا ہو کہ وہ خود اس خلا کو پُر کرے، کردار کے ساتھ اسے تخلیق کرے اور مشاہدہ کرے۔












لائیو ٹی وی