’27 ویں ترمیم نے آئین کو عملی طور پر قتل کردیا ہے‘
اپنی کتاب 1984 میں جارج اورویل نے لکھا تھا کہ ’رہنماؤں نے آپ سے کہا کہ آپ جو اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور کانوں سے سنتے ہیں، اس پر یقین نہ کریں، یہ سب سے اہم ہدایت ہے‘۔
پاکستان نے ماضی میں کئی بار فوجی آمروں کو آئین کو منسوخ یا معطل کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ درحقیقت جنرل ضیاالحق کو تو یہ تک کہتے سنا گیا ہے کہ آئین ایک کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ کچھ نہیں جسے وہ کسی وقت بھی پھاڑ سکتے ہیں۔
مرحوم آمر کا بیان اس تکبر کا عکاس تھا جو اقتدار کے ساتھ آتا ہے اور یہ اس آئین کو کم تر سمجھنے کا ان کا رویہ تھا جسے 1973ء میں ایک منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ 1988ء میں ایک فضائی حادثے میں جنرل ضیا الحق کے انتقال کے بعد آئین کو کچھ ترامیم کے ساتھ بحال کردیا گیا تھا۔
جنرل پرویز مشرف نے 1973ء کے آئین کو ایک بار نہیں بلکہ دو بار معطل کیا۔ انہوں نے پہلے 1999ء میں آئین معطل کیا اور پھر 2007ء میں کیا۔ حالانکہ ان کے اس اقدام کو دوسری بار قانونی تحفظ نہیں مل سکا۔ وہ دوسری بار آئین معطلی کے بعد کچھ ماہ تک اقتدار میں رہے۔ آئین کو بعد میں بحال کیا گیا۔
اصل بات یہ ہے کہ ان فوجی حکمرانوں نے بھی آئین کو اس طرح نہیں توڑا جس طرح اب ایک ایسی پارلیمنٹ نے کیا ہے جس کے مینڈیٹ پر پہلے ہی عوامی اعتراضات ہیں۔
جہاں 26ویں ترمیم نے حکومت کی شاخوں کے درمیان طاقت کے توازن کو بری طرح ہلا کر رکھ دیا تھا، 27ویں ترمیم نے تو آئین کو عملی طور پر قتل ہی کر دیا ہے۔ آخری رسومات ’بگ برادر‘ کی نگرانی میں عجلت میں ادا کی جا رہی ہیں۔ یہ شاید ہماری ناقابلِ رشک آئینی تاریخ کا سیاہ ترین لمحہ ہے۔
یہ کٹھ پتلی کے تماشے کی طرح تھا جہاں ایک کے بعد ایک قانون ساز ترمیم کی حمایت میں کھڑے ہوکر بولتا نظر آیا حالانکہ اس معاملے پر شاید ان سے ان کی رائے دریافت ہی نہیں کی گئی ہوگی۔ جب ووٹ ڈالنے کا وقت آیا تو انہوں نے قانون کے مسودے کو پڑھے بغیر صرف ’ہاں‘ کا نعرہ لگایا جو انہیں میٹنگ کے دوران دیا گیا تھا۔ انہوں نے صرف وہی کیا جو ان کی سیاسی جماعت نے انہیں کرنے کو کہا تھا۔
ان میں سے کچھ جانے پہچانے چہرے بھی تھے جنہوں نے ماضی میں بھی ضیا الحق اور پرویز مشرف کی فوجی حکومتوں میں آئین میں تبدیلی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ سینیٹ میں ترمیم کی منظوری کے لیے ووٹوں کی مطلوبہ تعداد اپوزیشن بینچز کے چند منحرف اراکین کو اپنی جانب کرکے حاصل کیے گئے۔ کسی کو یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ یہ کیسے ہوا۔
حزب اختلاف کی ایک جماعت، اپنے متعدد قانون سازوں کی حالیہ نااہلی کی وجہ سے توڑ پھوڑ کا شکار ہے اور ان کے مزید اراکین مزید دھتکار دیے گئے جنہیں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں نے مشکوک ٹرائلز میں سزا سنائی تھی۔ ان اراکین کے پاس پارلیمنٹ میں ووٹ کے عمل کا بائیکاٹ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ ایوان میں قابلِ ذکر اپوزیشن کی عدم موجودگی کے باوجود یہ دھوکا دہی جاری رہی۔
اس سے نہ صرف 26ویں ترمیم کے بعد عدالتوں کے لیے جو تھوڑی سی آزادی چھوڑی گئی تھی، وہ اب مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے بلکہ حکومت پر سویلین کنٹرول بھی ختم ہو چکا ہے۔ نئی ترمیم قانونی طور پر ملک کے پراٹورین ریاست (فوج کے زیر کنٹرول ریاست) بننے کے اقدام کو تحفظ فراہم کرے گی۔
آرمی چیف کو غیر معمولی اختیارات دیے گئے ہیں۔ انہیں اس سال مئی میں بھارت کے ساتھ 4 روزہ مختصر تنازع کی قیادت کرنے پر فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی۔ اب انہیں قانون کے مطابق مکمل استثنیٰ ہوگی اور انہیں کوئی بھی سزا نہیں دی جاسکتی جبکہ ان کی مدت ملازمت میں دوبارہ توسیع کے آپشن کے ساتھ فی الحال مزید 5 سال تک توسیع کردی گئی ہے۔
یہ تاحیات استثنیٰ نہ صرف فائیو اسٹار رینک والے مسلح افواج کے افسران کو دیا گیا ہے بلکہ صدر کو بھی دیا گیا ہے۔ لیڈران اور ریاستی عہدیداروں کے اعمال کا محاسبہ نہیں کرنے کی مثال کسی بھی جمہوری ملک میں نہیں ملے گی۔ یہ نہ صرف جمہوری اصولوں کی نفی ہے بلکہ قانون کی حکمرانی کے بھی خلاف ہے۔
جمہوری ممالک میں منتخب رہنماؤں کو اس طرح کا استثنیٰ نہیں دیا جاتا حتیٰ کہ جب وہ سرکاری دفتر میں ہوتے ہیں تب بھی ایسا رویہ نہیں اپنایا جاتا۔ لیکن پاکستان میں 27ویں ترمیم کے بعد انہیں غیرقانونی اقدامات سے مکمل استثنیٰ حاصل ہوگا۔
قومی اسمبلی میں ترمیم پر بحث دیکھنے میں کافی مزہ آیا جہاں وزرا اور حکومتی بینچز کے دیگر اراکین نے ملک کو 1973ء کا آئین دینے پر ذوالفقار علی بھٹو کی تعریف کرتے ہوئے اپنی تقریر کا آغاز کیا اور پھر ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس ترمیم سے ملک میں جمہوریت مزید مضبوط ہوگی۔
آئین کی روح کو مارنے کے بعد جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی بات کرنے والے ان سیاستدانوں کی منافقت پر تعجب بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کیا محض کٹھ پتلی بن کر سامنے آنے والے چہروں سے کسی اور چیز کی توقع رکھنی چاہیے؟
کچھ بھی ہو، ایوان میں ان کی موجودگی بعض حلقوں کی مرہون منت ہے۔ سینیٹ میں ترمیم پیش کرنے سے ایک دن قبل میں نے مسلم لیگ (ن) کے ایک بہت ہی سینئر رہنما سے اس تجویز کے بارے میں دریافت کیا جو ماضی میں کئی اہم وزارتی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ انہیں درحقیقت ترمیم کی دفعات کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔
اور وہ یقیناً اکیلے نہیں ہوں گے جنہیں اندازہ نہیں ہوگا۔ یہاں تک کہ کچھ وفاقی وزرا نے بھی نجی طور پر اعتراف کیا کہ انہیں اس مشاورت میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ ترمیم کے مسودے پر رازداری کو دیکھتے ہوئے یہ حیرت کی بات نہیں ہے۔
اور جس طرح سے اسے پارلیمنٹ کے ذریعے پہنچایا جا رہا ہے، اس سے تصور کرنے کے لیے کچھ باقی نہیں رہا۔ یہ ہے ہماری نام نہاد جمہوریت کی حالت جوکہ جوڑ توڑ کے ذریعے انتخابات میں ہیرا پھیری سے اقتدار میں آئی ہے۔
اس پوری صورت حال میں سب سے مایوس کُن پیپلز پارٹی کا کردار ہے۔ اگرچہ پارٹی حکمران اتحاد کا حصہ ہے، اس نے حکومت میں عہدہ نہ لینے کا انتخاب کیا ہے پھر بھی آئین کے انہدام میں پارٹی اور اس کے قائدین کا بھی اہم کردار تھا جسے بنانے کا سہرا پیپلز پارٹی اپنے سر لیتی ہے۔ جب پی پی پی کے قانون سازوں نے آئین کے تقدس کو برقرار رکھنے کے لیے جمہوریت کے لیے پارٹی قیادت کی طرف سے دی گئی قربانیوں کو فصاحت کے ساتھ بیان کیا تو اس وقت یہ سب غیرحقیقت پسندانہ لگ رہا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پی پی پی نے ماضی میں جمہوریت کے لیے جدوجہد کی ہے۔ لیکن اس کی موجودہ قیادت نے جماعت کی وراثت سے غداری کی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے آئین میں تبدیلیوں بالخصوص علیحدہ آئینی عدالت کے قیام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ میثاقِ جمہوریت کا حصہ ہے جس پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے 2006ء میں دستخط کیے تھے۔ تاہم عدالت کے بارے میں ان کی دلیل کوئی معنی نہیں رکھتی۔
میثاقِ جمہوریت، سویلین حکمرانی کو مضبوط رکھنے اور آئین کے تحفظ کے بارے میں بھی ہے۔ 27ویں ترمیم میثاقِ جمہوریت کے ہر نکتے کے خلاف ہے اور یہ ملک کو آمرانہ حکمرانی کی طرف لے جاتی ہے۔ موجودہ رہنماؤں کو ماضی کی قیادت کے مقابلے میں تاریخ انتہائی مختلف انداز میں پرکھے گی۔
اب ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ آئین اور 26ویں ترمیم کے بعد عدلیہ کو جو تھوڑی سی آزادی حاصل ہے، اس کے تحفظ کے لیے کچھ کرے گی؟ بدقسمتی سے نئی ترمیم نے ریاست کے اتحاد کو بھی کمزور کر دیا ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔











لائیو ٹی وی