آخری لمحے کی تبدیلی‘ سے چیف جسٹس آف پاکستان‘ سے متعلق غیر یقینی صورتحال ختم
بدھ کے روز قومی اسمبلی سے منظور ہونے والی 27ویں آئینی ترمیم میں آخری لمحے کی گئی تبدیلی (جسے بعد ازاں دوبارہ منظوری کے لیے سینیٹ کو بھیجا گیا) نے ایک اہم اور جاری بحث کو ختم کر دیا ہے کہ کیا چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) کا معزز عہدہ اب وفاقی آئینی عدالت (ایف سی سی) کے چیف جسٹس کے پاس ہو گا یا سپریم کورٹ آف پاکستان (ایس سی پی) کے چیف جسٹس کے پاس؟
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جب سے یہ آئینی ترمیم سینیٹ میں حتمی منظوری کے لیے پیش کی گئی تھی، یہ سوال اٹھایا جا رہا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کا ’ٹائٹل‘ کس کے پاس برقرار رہے گا۔
تاہم آرٹیکل 176 کی شق 23 میں کی گئی تبدیلی نے یہ ابہام دور کر دیا ہے، جس میں واضح کر دیا گیا کہ موجودہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اپنی مدتِ ملازمت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان ہی رہیں گے۔
جسٹس آفریدی نے اکتوبر 2024 میں 30ویں چیف جسٹس آف پاکستان کے طور پر حلف اٹھایا تھا، ان کی مدت 3 سال بعد مکمل ہوگی۔
اسی طرح ترمیم میں شامل کی گئی ایک نئی تعریف کے مطابق، چیف جسٹس آف پاکستان کا مطلب ہوگا کہ ’دونوں عدالتوں (ایف سی سی اور سپریم کورٹ) کے چیف جسٹس صاحبان میں سینئر ترین۔
یہ شق موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد نافذ العمل ہوگی۔
مزید وضاحت اس وقت سامنے آئی جب وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے صبح سے جاری اس بحث کو بے بنیاد قرار دیا کہ تاریخی 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ ختم کر دیا گیا ہے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وزیرِ قانون نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ ختم کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اب بھی سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) اور جوڈیشل کمیشن آف پاکستان جیسے اہم عدالتی اداروں کے سربراہ رہیں گے۔
تاہم، ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ عہدہ ایف سی سی اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹسز میں سے سینئر ترین کے پاس چلا جائے گا۔
اس سے قبل عام تاثر یہ تھا کہ وفاقی آئینی عدالت (ایف سی سی) کے قیام کے بعد وہ عدالتی درجہ بندی میں سب سے اعلیٰ عدالت کہلائے گی، کیونکہ اس کے چیف جسٹس کا ذکر آئینی طور پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے بلند سطح پر کیا گیا تھا۔
قانونی ماہرین کی آرا
سینئر وکیل حافظ احسان احمد کھوکھر نے ’ڈان‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی کی جانب سے ترمیم میں موجودہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت اور عہدے کے تسلسل کے بارے میں وضاحت ایک دیرینہ آئینی ابہام کو قانونی طور پر درست کرتی ہے جو سینیٹ سے منظوری کے دوران نظرانداز ہو گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ وضاحت موجودہ چیف جسٹس کے عہدے کے تسلسل کو آئینی دائرے میں تحفظ فراہم کرتی ہے، جب تک کہ اسے باضابطہ طور پر کسی نئے آئینی طریقہ کار کے تحت تبدیل نہ کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ وضاحت کسی نئے حق یا استحقاق کا اضافہ نہیں کرتی، بلکہ محض اس تسلسل کی توثیق کرتی ہے جو پہلے ہی قانون اور عمل میں موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ترمیم آئینی مطابقت کے تسلسل کی توثیق کے طور پر دیکھی جانی چاہیے، کیونکہ جب تک تقرری کی بنیادی شرائط برقرار ہیں، عہدہ اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وضاحت کے ذریعے قومی اسمبلی نے چیف جسٹس کے عہدے کے عدالتی تسلسل کو یقینی بنایا ہے اور آئینی اصولوں کے مطابق مدت کی تعبیر کو واضح کر دیا ہے۔
اختلافی آوازیں
اس وضاحت نے تنقید کے دروازے بھی کھول دیے۔
سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے اس تبدیلی کو شخصی نوعیت کی قانون سازی، امتیازی اور آئینی طور پر مشکوک قرار دیا۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اب اپنی سابقہ حیثیت کا سایہ بن چکی ہے، چیف جسٹس کا عہدہ محض ایک رسمی لقب بن گیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں چیف جسٹس کا بڑے بڑے القابات سے لگاؤ اور بھی حیران کن ہے، یہ سب کچھ ریاستی انکار، خودپسندی، اور فریبِ نفس کی علامت لگتا ہے۔












لائیو ٹی وی