• KHI: Clear 18.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.2°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.7°C
  • KHI: Clear 18.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.2°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.7°C

27ویں آئینی ترمیم کے بعد تمام قانونی راستے بند، عمران خان کا اگلا قدم کیا ہوگا؟

شائع November 17, 2025

26ویں ترمیم کے منظور ہونے کی بنیادی وجہ خوف تھا۔ یہ خوف کہ سپریم کورٹ کسی طرح سابق وزیرِاعظم عمران خان کو رہا نہ کر دے اور کہیں گزشتہ انتخابات کو بھی کالعدم قرار نہ دے دے یعنی ایسے انتخابات جن کے نتائج کے بارے میں بہت سے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ بیلٹ باکس میں عوام کی حقیقی رائے کو شامل نہیں کیا گیا۔ 27ویں ترمیم اسی خیال کو منطقی انجام تک پہنچاتی ہے۔

یہ اقدام اُس ’ہائبرڈ‘ نظام کو آئینی تحفظ فراہم کرتا ہے جسے وزیرِ دفاع نے اسی نام سے پکارا ہے اور ساتھ ہی یہ اس نظام کے سینئر شراکت دار کے قائدانہ کردار کو تسلیم بھی کرتا ہے اور اسے باضابطہ آئینی شکل بھی دیتا ہے، ایک ایسا کردار جو اس نظام کے جونیئر و سویلین شراکت دار کے اقتدار کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی جاری رہے گا۔

جب ناقدین کہتے ہیں کہ اعلیٰ عدالتیں اب انتظامیہ کے کنٹرول میں آجائیں گی تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عوامی حکومت اور باوردی اداروں کے درمیان طاقت کے عدم توازن کو دیکھتے ہوئے، عدلیہ کے کچھ حصوں پر اسٹیبلشمنٹ کی گرفت آہنی ہوجائے گی۔

اگرچہ یہ بات درست ہو سکتی ہے لیکن یہ کہنا بھی مناسب ہوگا کہ جو کچھ ہوا ہے، اُس نے پہلے سے تسلیم کردہ ایک حقیقت کو صرف آئینی تحفظ فراہم کیا ہے۔ چند انتہائی مختصر اور غیر اہم ادوار کے علاوہ، اعلیٰ عدلیہ نے اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کا شاذ و نادر ہی ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

سپریم کورٹ کی پیشرو وفاقی آئینی عدالت سے آغاز کرتے ہوئے، چیف جسٹس محمد منیر کا بدنامِ زمانہ فیصلہ جس نے سندھ چیف کورٹ کا وہ حکم کالعدم کر دیا تھا جو اسپیکر مولوی تمیزالدین کے حق میں آیا تھا جہاں انہوں نے گورنر جنرل غلام محمد کے اسمبلی کو تحلیل کرنے کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا سے لے کر آج تک، اعلیٰ عدلیہ کے اہم ترین فیصلے قانون کی حکمرانی یا آئین کی روح اور اس کی بالادستی سے زیادہ طاقت کے مراکز کی منشا کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔

اس حوالے سے میں بہت سی مثالیں پیش کرسکتا ہوں۔ ایوب خان کے دور میں ہونے والے واقعات سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو کی برطرفی اور سزائے موت کی منظوری تک، 1988ء سے لے کر 1999ء میں فوج کے قبضے تک کئی حکومتوں کی برطرفی تک، سپریم کورٹ نے قانون، انصاف اور عوام کا کب دفاع کیا ہے؟ اگر سپریم کورٹ کو کمزور کیا گیا ہے تو یہ 27ویں ترمیم کے آئین میں شامل ہونے سے بہت پہلے ہوچکا تھا۔

یہی عدلیہ حال ہی میں دو منتخب وزرائے اعظم کو گھر بھیج چکی ہے اور اس نے اسٹیبلشمنٹ کی رہنمائی پر عمل کیا ہے۔ لیکن اب جو کچھ ہوا ہے وہ چونکا دینے والا اس لیے ہے کیونکہ یہ باضابطہ طور پر آئین میں لکھا گیا ہے حالانکہ کئی ججز بظاہر طویل عرصے سے اس مداخلت پر مطمئن نظر آتے تھے۔

فوج کے سامنے کھڑے ہونے والے چند جج مستثنیٰ تھے لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہر وہ جج جس نے بندوق کی مرضی کے آگے سر نہ جھکایا اور پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا، شاید درجنوں دیگر ججز اس جج کی جگہ لینے کے لیے تیار ہیں۔

یہی تو المیہ ہے۔ جہاں تک بین الاقوامی ماحول کا تعلق ہے تو جمہوریت، قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق اور فرد کی آزادی سب پر حملہ یا خطرہ محسوس کیا جارہا ہے۔ یہ قابلِ قدر عنصر بظاہر پسپائی کی طرف جاتا نظر آرہا ہے۔

سوشل میڈیا کے اثرات سے بننے والی کہانیوں کے زمانے میں جہاں روایتی میڈیا کے اثر و رسوخ میں کمی واقع ہورہی ہے خاص طور پر ان عناصر کی جو سچائی، غیرجانبداری، توازن اور انصاف پر یقین رکھتے تھے، ایک نیا توازن اُبھر رہا ہے۔ یہ ہمیں کہاں لے جا رہا ہے یا لے جائے گا، یہ ایک علیحدہ کہانی ہے۔

ہماری صورت حال میں بہت سے بیرونی خطرات اور دہشت گردی کے ملک میں سر اٹھانے اور جمہوریت کو ’ہائبرڈ‘ نظام سے بدلنے کے بعد، اب تمام طاقت ایک شخص کے پاس ہے۔ کچھ لوگ اتفاق کرسکتے ہیں کہ کسی حقیقی جواز کے بغیر ہی سیاست دانوں نے ایک فرد کو مکمل آئینی کنٹرول حاصل کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔ اب نتائج کی ذمہ داری بھی انہیں پر ہوگی اور کامیابیاں یا ناکامیاں بھی انہی کے کھاتے میں آئیں گی۔

میں ذاتی طور پر دل سے امید کرتا ہوں کہ قومی دفاع کے معاملے میں، فوجی ادارے مئی کے پاک-بھارت تنازع میں حاصل کی گئی کامیابیوں کو دہرا سکیں اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کی کارکردگی کو بہتر بنا سکیں جو اب تک اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوپائی ہے۔

مستقبل میں اس نفرت انگیز ماحول میں قومی سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے کا واحد راستہ اقتصادی ترقی، ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا اور لوگوں کو بنیادی خدمات فراہم کرنا ہے جن میں سے اکثریت تقریباً تمام سہولیات سے محروم ہیں۔ اور حقیقت ہے کہ ہمارے عوام کو شدید نظر انداز کیا گیا ہے۔

اکثر ذمہ داری سیاسی جماعتوں پر ڈالی جاتی رہی ہے کہ وہ کام کرنے میں ناکام ہیں حالانکہ ایسی واضح مثالیں بھی موجود ہیں جہاں اقتصادی صورت حال بہتر ہونے کے باوجود سیاسی جماعتوں کو فیصلہ سازی سے روکا گیا ہے یا انہیں برطرف کیا گیا ہے۔ غیرمنتخب طاقت رکھنے والے افراد کے ذاتی مفادات، عوام کی بھاری اکثریت کے مفاد پر غالب آچکے ہیں۔

بیان کردہ تعریف کے مطابق، یہ ہائبرڈ نظام عام ذمہ داری کو تسلیم کرتا ہے جہاں اب اس نظام کا سینئر شراکت دار ناکامیوں کے لیے جونیئر عوامی شراکت داروں کو الزام نہیں دے سکتا۔ کسی بھی غلطی کی ذمہ داری کو اب مشترکہ طور پر فوجی و عوامی اداروں کو اٹھانا پڑے گی۔

یہ 27ویں آئینی ترمیم بظاہر سیاست دانوں اور اقتدار سے باہر حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے لیے صورت حال کو مزید مشکل بنا دیتی ہے۔ جب انہوں نے موجودہ صورت حال میں تبدیلی کے لیے سڑکوں پر نکلنے کی کوشش کی اور ناکام رہے تو شاید ایک آخری امید جو کسی حد تک روشن تھی، وہ اعلیٰ عدالتوں کے ذریعے ملنے والا قانونی یا عدالتی ریلیف تھا۔ لیکن اب اسے بھی ختم کر دیا گیا ہے۔

دیگر طاقتور اداروں میں اس جماعت کے حامیوں اور ہمدردوں کو ہٹا دیا گیا ہے یا دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اپوزیشن کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کی ضرورت ہوگی کیونکہ انہیں ملک کے کسی طاقت کے مرکز سے مدد نہیں ملے گی۔

عمران خان کے حامی اور عقیدت مند کہتے ہیں کہ ان کا مؤقف جھکنے والا نہیں اور اصولی ہے جبکہ دیگر کم از کم یہ محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے اب تک استقامت اور ضد کا مظاہرہ کیا ہے اور ہائبرڈ نظام کے ذیلی شراکت دار یعنی حکومت سے بات کرنے سے گریز کیا ہے حالانکہ انہیں اکثر بات چیت کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔

آزادی اور بحالی کے لیے قانونی راستہ اب بند ہو چکا ہے تو یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ سابق وزیرِ اعظم اور ان کے اہم ساتھی اب آگے کیا طریقہ بہتر سمجھتے ہیں۔ چونکہ ان کے ساتھی اکثر اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ انہیں بےخبر رکھا جاتا ہے تو اس لیے شاید چند ہفتوں یا مہینوں تک اس بات کا کوئی اشارہ نہیں مل پائے گا کہ تحریک انصاف کی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عباس ناصر

عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abbasnasir59@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 14 دسمبر 2025
کارٹون : 13 دسمبر 2025