آڈٹ نظام کی کمزوری سے کھربوں روپے کے عوامی فنڈز کو خطرہ ہے، آئی ایم ایف کا انتباہ
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپنی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ آڈٹ نظام کی کمزوریوں کے باعث کھربوں روپے کے سرکاری وسائل ضائع ہونے یا غلط استعمال ہونے کے خطرات بڑھ رہے ہیں، جس سے معیشت اور مالی نظم و ضبط پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستان میں اندرونی آڈٹ کے نظام کی عدم موجودگی اور آئینی و پارلیمانی آڈٹ نگرانی کی کمزوری پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ یہ خلا وفاقی سطح پر اندازاً 40 کھرب روپے اور صوبوں میں اس سے بھی زیادہ کے عوامی فنڈز کے لیے بڑے مالیاتی خطرات پیدا کرتا ہے۔
آئی ایم ایف نے ٹیکس دہندگان کے پیسے کے بہتر استعمال کو یقینی بنانے کے لیے آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کے مکمل طور پر خود مختار دفتر کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔
آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ ’گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگنوسس اسیسمنٹ (جی سی ڈی اے)‘ کے ایک تفصیلی حصے میں پاکستان کے داخلی مالیاتی کنٹرولز، اندرونی و بیرونی آڈٹ کے نظام، آئینی خود مختاری کے باوجود اے جی پی کے عملی طور پر حکومتی کنٹرول میں ہونے اور پارلیمانی نگرانی کے ادارے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کی ناکافی صلاحیت اور کردار سمیت متعدد کمزوریاں اجاگر کی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ حیران کن نہیں کہ مالی بے ضابطگیوں، خرد برد اور بدعنوانی کے کھربوں روپے مالیت کے کیسز ہر سال بے نقاب ہوتے رہتے ہیں۔
آئی ایم ایف نے کہا کہ ایک مؤثر اندرونی کنٹرول کا نظام ایسے ماحول کی تشکیل کے لیے ضروری ہے جو عوامی وسائل کے استعمال سے متعلق مناسب فیصلوں کو یقینی بنائے اور ان فیصلوں پر واضح جوابدہی بھی قائم کرے، جس میں انتظامی ڈھانچوں کے ذریعے نگرانی اور اعلیٰ آڈٹ اداروں اور پارلیمنٹ کے ذریعے بیرونی نگرانی شامل ہو۔
فنڈ کے مطابق اندرونی اور بیرونی دونوں آڈٹ کسی بھی ادارے کے آپریشنز اور مالی رپورٹنگ کی شفافیت برقرار رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں، جو بدعنوانی کے خطرے کو کم کرتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں اندرونی آڈٹ کمزور ہے، پبلک فنانس مینجمنٹ (پی ایف ایم) ایکٹ 2019 کے مطابق ہر ڈویژن میں چیف انٹرنل آڈیٹر (سی آئی اے) کی تقرری ضروری تھی، جو 2020 تک پرنسپل اکاؤنٹنگ افسران کے ساتھ براہِ راست کام کرتے۔
آئی ایم ایف نے بتایا کہ اس کے باوجود سی آئی ایز کی تقرری پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔
رپورٹ کے مطابق 25 چیف فنانس اینڈ اکاؤنٹس افسران (سی ایف اے اوز) وزارتوں میں مالی امور کے لیے کام کر رہے ہیں، لیکن سی آئی ایز تمام وزارتوں و ڈویژنز میں تعینات نہیں کیے گئے، جب کہ 15 وزارتوں اور ڈویژنز میں سی ایف اے اوز بھی موجود نہیں، یوں چھ سال گزرنے کے باوجود پی ایف ایم ایکٹ 2019 پر مکمل عمل درآمد اب بھی ایک خواب ہے۔
مزید کہا گیا کہ جن وزارتوں اور ڈویژنز میں سی ایف اے اوز موجود ہیں وہاں بھی اندرونی آڈٹ رپورٹس پر مستقل مزاجی، دلچسپی اور فالو اپ کا فقدان ہے۔
فنڈ نے سوال اٹھایا کہ آڈیٹر جنرل کا دفتر اب تک فیڈرل سیکریٹریٹ کا منسلک ادارہ کیوں ہے، جس کے باعث مکمل خود مختاری حاصل نہیں ہوتی۔
آئین کے آرٹیکل 171 اور پاکستان آڈٹ آرڈیننس 2001 کے آرٹیکل 7 کے مطابق اے جی پی کو وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے محکموں کے اخراجات اور مالیاتی حسابات کی توثیق کرنا ہوتی ہے اور تصدیق شدہ رپورٹس بالترتیب صدر اور گورنرز کو پیش کی جاتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق منسلک ادارے کی حیثیت کے باعث آڈیٹر جنرل براہ راست پارلیمنٹ کو رپورٹ نہیں کرتا بلکہ وفاقی سیکریٹریٹ، وزیر اعظم اور صدر کے ذریعے رپورٹ کرتا ہے، جو آڈٹ کے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ عمل کو متاثر کر سکتا ہے۔
مزید یہ کہ آڈیٹر جنرل کے دفتر کو آڈیٹرز کی بھرتی کے لیے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی منظوری درکار ہوتی ہے۔
او اے جی نے آئی ایم ایف کو بتایا کہ انہیں عملے کی شدید کمی کا سامنا ہے، یعنی ایک ہزار 500 ملازمین کی کمی، کیونکہ مالی پابندیوں کے باعث بھرتیوں کی منظوری نہیں مل رہی۔
اگرچہ آڈیٹر جنرل کا بجٹ ایسا ہوتا ہے جس پر پارلیمنٹ سے منظوری نہیں لینی پڑتی، لیکن پھر بھی اس بجٹ کو جاری کرنے کے لیے انہیں فنانس ڈویژن سے اجازت لینا ہوتی ہے اور یہ اجازت اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ سرکاری خزانے میں پیسے موجود ہیں یا نہیں، اس وجہ سے آڈیٹر جنرل کا دفتر پوری طرح آزادانہ طور پر کام نہیں کر پاتا۔
مسئلہ اس وقت اور بڑھ جاتا ہے جب آڈٹ رپورٹس بہت لمبی ہوتی ہیں، ان میں پرانی سفارشات بار بار دہرائی جاتی ہیں اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) ان رپورٹس کا بروقت جائزہ نہیں لیتی۔
آڈیٹر جنرل کا دفتر ہر سال 6 ہزار سے زیادہ رپورٹس بناتا ہے، لیکن پی اے سی اور متعلقہ وزارتیں ان پر تقریباً کوئی کارروائی نہیں کرتیں، اسی وجہ سے سپریم آڈٹ ادارے کی 34 ہزار میں سے 75 فیصد سفارشات اب تک پی اے سی میں زیرِ غور نہیں آئیں۔
مزید کہا گیا کہ بعض رپورٹس ہزاروں صفحات پر مشتمل ہوتی ہیں، جن میں برسوں سے موجود ایک ہی نوعیت کی سفارشات دہرائی جاتی ہیں کیونکہ متعلقہ ادارے ان بے ضابطگیوں کو دور نہیں کرتے، مثال کے طور پر وفاقی حکومت کی کمپلائنس آڈٹ رپورٹ برائے 24-2023 چار ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔
اس کے علاوہ آڈٹ اعتراضات اور سفارشات کے جواب یا ان پر عملدرآمد کی نگرانی کے لیے کوئی نظام موجود نہیں، جس سے آڈٹ کے اثرات اور افادیت مزید کم ہوجاتی ہے۔
آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا کہ ایسا نظام بنایا جائے جس کے تحت حکومتی اداروں کو آڈٹ سفارشات اور پی اے سی کے احکامات نہ ماننے پر جوابدہ ٹھہرایا جا سکے۔
فنڈ نے تجویز دی کہ پی اے سی کے قواعد و ضوابط اور اے جی پی ایکٹ میں مناسب ترامیم کی جائیں تاکہ ان اداروں کو اپنے احکامات پر عملدرآمد یقینی بنانے کے اختیارات مل سکیں۔
آئی ایم ایف نے آئندہ کے لیے سفارش کی کہ آڈٹ رپورٹس کو مختصر اور اہم ترین سفارشات تک محدود کیا جائے اور مسائل کو ان کی اہمیت اور ہنگامی نوعیت کے مطابق مرتب کیا جائے، جن کی وضاحت کے لیے ٹریفک لائٹس جیسے بصری نظام بھی استعمال کیے جائیں۔
اسی طرح پارلیمانی نگرانی کو مضبوط بنایا جائے، پی اے سی کو آڈٹ رپورٹس کے بروقت جائزے کا پابند کیا جائے اور عملدرآمد کی نگرانی کے لیے مرکزی سیکریٹریٹ کے ذریعے ایک ٹریکنگ سسٹم قائم کیا جائے تاکہ شفافیت اور جوابدہی میں بہتری لائی جا سکے۔












لائیو ٹی وی