یوکرینی دارالحکومت پر میزائل اور ڈرون حملے، ابوظبی میں امریکا اور روس کے امن مذاکرات
ابوظبی میں امریکی فوج کے سیکریٹری ڈین ڈرسکول نے روسی حکام کے ساتھ بات چیت کی ہے، جو یوکرین کی جنگ کے خاتمے کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی نئی اور بھرپور کوشش کا حصہ ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی اور یوکرینی حکام ایک امن منصوبے پر اپنے درمیان اختلافات کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاہم بنیادی مسائل اب بھی حل طلب ہیں اور یوکرین کو خدشہ ہے کہ اسے کریملن کی شرائط پر مبنی کسی معاہدے کو قبول کرنے کے لیے دباؤ میں نہ لایا جائے۔
امریکی فوج کے لیفٹیننٹ کرنل جیف ٹالبَرٹ نے کہا کہ ’پیر کی رات اور منگل کو دن بھر سیکریٹری ڈرسکول اور اُن کی ٹیم یوکرین میں پائیدار امن کے حصول کے لیے روسی وفد کے ساتھ بات چیت میں مصروف رہے، مذاکرات مثبت سمت میں جا رہے ہیں اور ہم پُرامید ہیں، سیکریٹری ڈرسکول وائٹ ہاؤس کے ساتھ مکمل ہم آہنگی میں ہیں… جیسے جیسے یہ بات چیت آگے بڑھتی ہے۔
بات چیت کی نوعیت واضح نہیں، اور یہ بھی معلوم نہیں کہ روسی وفد میں کون شامل تھا، ایک امریکی اہلکار نے بتایا کہ ڈرسکول، جو یوکرین سے متعلق امریکی سفارتی کوششوں میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں، ابو ظبی میں یوکرینی حکام سے ملنے کی بھی امید رکھتے ہیں۔
دوسری جانب یوکرین کا دارالحکومت کیف رات بھر روسی میزائلوں اور ڈرونز کے حملوں کی زد میں رہا، جس سے کم از کم 6 افراد ہلاک ہوئے اور بجلی کے نظام میں خلل پڑا۔
ٹرمپ سے حساس معاملات پر گفتگو ہوگی: زیلنسکی
امریکی پالیسی گزشتہ چند ماہ میں اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔
اگست میں الاسکا میں ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی اچانک طے پانے والی ملاقات نے کیف اور یورپی دارالحکومتوں میں خدشات پیدا کر دیے کہ کہیں ٹرمپ انتظامیہ روس کے مطالبات تسلیم نہ کر لے، اگرچہ بالآخر امریکا نے روس پر دباؤ بڑھایا۔
تازہ ترین امریکی امن منصوبہ (28 نکاتی تجویز ) گزشتہ ہفتے سامنے آیا، اس سے امریکی حکومت، کیف اور یورپ کے بہت سے حلقے حیران رہ گئے اور یہ تشویش بڑھ گئی کہ شاید ٹرمپ انتظامیہ یوکرین پر ایسا امن معاہدہ قبول کرنے کا دباؤ ڈال رہے ہیں، جو روس کے حق میں زیادہ جھکا ہوا ہو۔
منصوبے کے مطابق کیف کو مزید علاقہ چھوڑنا ہوگا، اپنی فوجی صلاحیتوں پر پابندیاں قبول کرنا ہوں گی، اور نیٹو میں شمولیت سے ہمیشہ کے لیے دستبردار ہونا ہوگا، ایسی شرائط جنہیں کیف طویل عرصے سے عملاً ہتھیار ڈالنے کے مترادف قرار دے کر مسترد کرتا آیا ہے۔
یہ اچانک دباؤ یوکرین اور صدر وولودیمیر زیلنسکی کے لیے مشکلات بڑھا رہا ہے، جو جنگ کے آغاز کے بعد سے اپنی کمزور ترین پوزیشن پر ہیں، کیونکہ بدعنوانی کے ایک اسکینڈل کے بعد ان کے دو وزراء برطرف کیے جا چکے ہیں، اور روس میدانِ جنگ میں پیش قدمی کر رہا ہے۔
زیلنسکی کے لیے ایسا معاہدہ منظور کرانا مشکل ہوگا جسے عوام اپنے مفادات سے غداری سمجھیں۔
انہوں نے پیر کو کہا کہ نئے امن منصوبے میں ’درست‘ نکات شامل ہیں، جو اختتامِ ہفتہ جنیوا میں بات چیت کے بعد سامنے آئے۔
اپنے رات کے ویڈیو خطاب میں زیلنسکی نے کہا کہ حساس ترین معاملات، سب سے نازک نکات، میں صدر ٹرمپ کے ساتھ زیرِ بحث لاؤں گا۔
زیلنسکی، جو آئندہ چند روز میں امریکا کا دورہ کر سکتے ہیں، نے کہا کہ حتمی دستاویز کی تیاری کا عمل مشکل ہوگا، روس کے بلا تعطل حملوں نے بہت سے لوگوں میں اس بارے میں شکوک پیدا کر دیے ہیں کہ جلد امن کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔
روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ امن منصوبے کے نظرثانی شدہ ورژن میں الاسکا سربراہی ملاقات میں پیوٹن اور ٹرمپ کے درمیان طے شدہ ’روح اور متن‘ کی جھلک ہونی چاہیے۔
یورپی ہتھیار ڈالنے کے خلاف میکرون کا انتباہ
یوکرین کی حمایت کرنے والے ممالک (بشمول برطانیہ اور فرانس) منگل کو ورچوئل اجلاس منعقد کرنے والے ہیں۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے امریکی تجویز کے بارے میں آر ٹی ایل ریڈیو سے گفتگو میں کہا کہ یہ ایک ایسی پہل ہے جو درست سمت میں جاتی ہے، تاہم امن منصوبے کے کچھ حصے ایسے ہیں جن پر بات چیت، مذاکرات اور بہتری کی ضرورت ہے، ہم امن تو چاہتے ہیں، لیکن ایسا امن نہیں جو ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ صرف یوکرینی ہی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کون سی علاقائی رعایتیں وہ دینے کو تیار ہیں۔
میکرون نے کہا کہ جو کچھ پیش کیا گیا ہے، وہ ہمیں بتاتا ہے کہ روسیوں کے لیے کیا قابل قبول ہو سکتا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ یوکرینیوں اور یورپیوں کے لیے بھی قابل قبول ہونا چاہیے؟ جواب ہے: نہیں۔












لائیو ٹی وی