چاہتے ہیں پاکستان غزہ کی تعمیرِ نو اور بحالی میں زیادہ بڑا کردار ادا کرے، مصری وزیر خارجہ
مصری وزیرِ خارجہ بدر عبدالعاطی نے کہا ہے کہ غزہ کے لیے مجوزہ عالمی استحکام فورس (آئی ایس ایف) کا دائرہ کار صرف جنگ بندی کی نگرانی اور محاصرے والے علاقے کی سرحدوں کے تحفظ تک محدود ہونا چاہیے، جب کہ انہوں نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ غزہ کی تعمیرِ نو اور بحالی میں زیادہ بڑا کردار ادا کرے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہفتے کو اسلام آباد کے 2 روزہ دورے پر پہنچنے کے فوراً بعد انہوں نے ’ڈان‘ سے گفتگو میں کہا کہ ’استحکام فورس کے بارے میں ہمارا موقف واضح ہے کہ اس کا بنیادی مینڈیٹ جنگ بندی کی زمینی سطح پر نگرانی کرنا ہے تاکہ دونوں فریق اپنے وعدوں پر قائم رہیں، اور غزہ کی سرحدوں کو محفوظ بنانا ہے‘۔
اپنے دورے کے دوران وہ پاکستانی قیادت کے ساتھ وسیع ایجنڈے پر بات چیت کریں گے، جس میں غزہ اور سوڈان سمیت تنازعات اور ایران کے جوہری پروگرام پر اختلافات کے بارے میں مشاورت سے لے کر معاشی تعاون کو تیز کرنے تک کے امور شامل ہیں۔
ان کے یہ ریمارکس ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں، جب پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحٰق ڈار نے پہلی بار عوامی طور پر انکشاف کیا کہ اسلام آباد نے اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کو استحکام فورس کے لیے فوجی دستے فراہم کرنے کی اپنی آمادگی سے آگاہ کر دیا ہے۔
جیسے پاکستان کا موقف ہے کہ وہ حماس کے غیر مسلح کرنے جیسے متنازع معاملے میں فریق نہیں بننا چاہتا، ویسے ہی بدر عبدالعاطی نے کہا کہ فورس کی تفصیلات ابھی زیرِ بحث ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم مختلف شراکت داروں (جن میں امریکا بھی شامل ہے) کے ساتھ مل کر ایک مخصوص مشن اور مینڈیٹ پر اتفاق کرنے کے لیے کام کررہے ہیں، جس کا محور امن نافذ کرنے کے بجائے امن برقرار رکھنے پر ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اُن ممالک پر بھی اتفاق کرنا ہوگا، جو فوجی دستے فراہم کریں گے، مشن، مینڈیٹ، ضمانتوں اور تحفظات پر بھی، سب کچھ ابھی زیرِ غور ہے۔
ڈاکٹر بدر عبدالعاطی نے بتایا کہ مصر غزہ کی تعمیرِ نو پر ایک کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے اور وہ اس میں پاکستان کے زیادہ فعال کردار کا خواہاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کے حوالے سے ہمیں پاکستان سے صرف مالی تعاون ہی نہیں بلکہ نجی شعبے کی تعمیرِ نو اور بحالی کی کوششوں میں شمولیت کی ضرورت بھی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں تکنیکی معاونت اور طبی مدد کی بھی ضرورت ہے، غزہ میں 50 ہزار ایسے طبی کیس ہیں جنہیں فوری علاج درکار ہے، ہم آپ کے عظیم ملک سے زیادہ متحرک کردار کی توقع کر رہے ہیں۔
بدر عبدالعاطی نے کہا کہ پاکستان اور مصر دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ پائیدار امن کا واحد راستہ ایک فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ ہی ان کے ایجنڈے کا واحد مسئلہ نہیں، ہم دیگر امور پر بھی بات کر رہے ہیں، جن میں سوڈان شامل ہے جہاں صورتحال تباہ کن ہے، ہمیں اس بدترین جنگ اور شہریوں کے قتلِ عام کو روکنے کی کوششیں تیز کرنا ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ دیگر علاقائی معاملات پر بھی یہی بات لاگو ہوتی ہے، جن میں ایران کا جوہری مسئلہ شامل ہے، ہمیں تناؤ میں کمی، مکالمے اور تنازعات کے پرامن حل کی ضرورت ہے، مصر اور پاکستان ایک جیسے مؤقف رکھتے ہیں، ہم ایران کے ساتھ تناؤ کم کرنے، امن عمل بحال کرنے اور بین الاقوامی قانون و اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں پر کاربند رہنے پر یقین رکھتے ہیں۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ فوجی حل موجود نہیں، صرف سیاسی اور پرامن حل ہیں۔ ہمیں مل کر تناؤ میں کمی کے لیے کام کرنا ہوگا۔
دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے مصری وزیرِ خارجہ نے اقتصادی روابط بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا، انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کو تجارتی حجم دوگنا کرنا چاہیے، باہمی سرمایہ کاری میں اضافہ کرنا چاہیے اور ساؤتھ-ساؤتھ تعاون کو مضبوط بنانا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ زیرِ غور تجاویز میں پاکستان-مصر بزنس کونسل کی ازسرِنو تشکیل اور کراچی یا قاہرہ میں بزنس فورم کا انعقاد شامل ہے تاکہ دونوں ممالک کے نجی شعبوں کو جوڑا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ مصر اور پاکستان کو توانائی، ٹیکسٹائل، فوڈ پروسیسنگ، زراعت، آئی ٹی، ڈیجیٹائزیشن، مصنوعی ذہانت اور پیٹروکیمیکلز میں تعاون بڑھانا چاہیے۔
ڈاکٹر بدر الطاعی کا کہنا تھا کہ انسدادِ دہشتگردی، غیرقانونی نقل مکانی اور اسمگلنگ کے خلاف لڑائی میں بھی اشتراک کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کی منتقلی اور مشترکہ منصوبوں پر مبنی دفاعی تعاون کو بھی وسعت دینی چاہیے۔












لائیو ٹی وی