بد عنوانیوں پر مزید نظر

شائع September 12, 2012

۔ تصویر بشکریہ، کری ایٹو کامنز

بہت سے پاکستانیوں کی یہ سوچ ہے کہ آجکل جن بدعنوانیوں کا چرچا ہے وہ ہماری تاریخ کے اس قدرے مثالی دور کے برعکس ہے جبکہ ہمارے حکمران اور سرکاری ملازمین ایماندار تھے اور اپنے فرائض تندہی سے انجام دیتے تھے۔

ہماری موجودہ کوششیں کہ اس نظام کو جیسے بھی ہو ،جس طرح سے بھی ہو پاک و صاف کیا جاۓ محض سراب دکھائی دیتا ہے جو ہمیں باربار دھوکہ دے  جاتا ہے۔

ایک ماضی کے بارے میں ہماری دلکش سوچ یہ ہے کہ شہری ٹیکس دیتے تھے اور اس کے عوض حکمران طبقه ان کا خیال رکھتا تھا۔

ان لوگوں کے لئے جو اس خیالی دنیا میں رہ رہے ہیں ایک نئی  خبر ہے "ایسا سنہری دور کبھی بھی نہیں تھا "- مغلیہ دور کو ایک اچھے نظام حکومت کا نمونہ سمجھا جاتا ہے جہاں سب کو انصاف میسر تھا اور سب خوشحال تھے -ایس ای فائنر ان دانشوروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے مغلیہ سلطنت پر تحقیق کی ہے اس مو ضوع پر انکی کتاب"دی ہسٹری آف گورنمنٹ فرام دی ارلیسٹ ٹا ئمز"تین جلدوں میں شائع ہوئی ہے اور اسے طرز حکمرانی کے ارتقا پرایک جا مع کتاب سمجھا جا سکتا ہے۔

مذکورہ بالا کتاب میں ایک باب مغلیہ سلطنت کے بارے میں ہے جس میں فائنررقم طراز ہے ۔

"اس (مغلیہ سلطنت) کے ادارے خلقی نہ تھے - یہ ایک فاتح ریاست تھی جو دشمنوں کی لگاتار تباہی پرزندہ تھی اور اسکا ڈھانچہ مکمل طور پر استحصالی نوعیت کا تھا ۔ محصولات وصول کئے جاتے تھے جس کے تحت کسانوں کی پیداوار اور تاجروں کے مال کوصرف ایک چھوٹے سے ناکارہ حکمران طبقه کے استعمال کے لئے مختص کر دیا جاتا تھا- اس سلطنت کو اجمالی طور پر یوں بیان کیا جاتا تھا جیسے یہ ایک موثر انتظامیہ ہو ۔ جیسا کہ ہم سمجھ سکتے ہیں ۔ انتظامیہ ڈھیلی ڈھالی،غیر منظم ، انتشار کا شکار اور بدعنوان تھی ۔

مختصر یہ کہ ،اگر ہم اس زمانے کی عظیم ایشیائی ریاستوں کا جائزہ لیں اور اسکا موازنہ اس دور حکومت سے کریں تو ایک بھی ریاست ایسی نظرنہیں آتی جہاں دولت کی نمائش اور فرصت کے مشاغل کے درمیان ایسا نمایاں فرق ہو جیسا کہ اس بے پرواہ اور بدعنوان انتظامیہ میں دکھائی دیتا ہے ۔ اس دور کی تمام ریاستوں میں مغلیہ سلطنت ہی سب سے بدتر تھی۔

اس کتاب میں مغلیہ سلطنت کے تعلق سے اورنگزیب کا ذکر کسی قدر تفصیل کے ساتھ موجود ہے.اس کے دور حکومت میں پوری سلطنت میں جنگ و جدل کا ایک ختم نہ ہونیوالا سلسلہ جاری تھا خاص طور پر مرہٹوں کے خلاف - میں اکثر حیران ہوا کرتا تھا کہ یہ مہمیں اتنے طویل عرصہ تک کیوں جاری رہیں حالانکہ ان دنوں فوج کی نقل و حرکت کافی سست ہوا کرتی تھی۔

مجھے یہ کہتے ہوئے دکھ ہوتا ہے کہ اس کی وجہ بدعنوانی تھی سپہ سالاروں کوانکی فوج کی نفری کے لحاظ سے نقد رقم ادا کی جاتی تھی.لیکن یہ سپہ سالار جس نفری کا معاوضه وصول کرتے تھے وہ اسکے مقابلے میں کافی چھوٹی ہوتی تھی اوراس طرح وہ ہر مہینہ کافی رقم بچالیا کرتے تھے .اکثر یہ فوج اتنی چھوٹی ہوتی تھی کہ فتح حاصل کرنا انکے بس کی بات نہ تھی اوربالاخر کسی فیصلہ کن جنگ کے بغیر یہ سپہ سالار مال و دولت سمیٹ کر دہلی واپس ہوا کرتے تھے۔

مغل دور حکومت میں اگر آپکو کوئی کام کروانا ہوتا تو اپنی عرضی کے ساتھ " نذرانہ" یا تحفہ پیش کرنا لازمی تھا آپ نے اس معروف بدعنوان مغل افسر کی کہانی ضرور سنی ہوگی جسکا ایک ایسے عہدہ پر تبادلہ کر دیا گیا تھا جو خاص طور پر اسی کے لئے قائم کیا گیا تھا اور اس عہدہ کا نام تھا "لہروں کا حساب داں"۔

خیال یہ تھا کہ وہ یہاں کسی قسم کی رشوت نہیں لے سکےگا- اسکے افسر کو خیال نہ آیا کہ یہ افسر کتنا چالاک ہے- جلد ہی اس نے وہاں سے گزرنے والے جہازوں کو روکنا شروع کردیا اور انکے کپتانوں سے رشوت کا مطالبہ کرنے لگا- اس کا جواز یہ تھا کہ جب یہ جہاز وہاں سے گزرتے ہیں تو موجوں کی روانی متاثر ہوتی ہے اور وہ ان کا صحیح حساب کتاب نہیں رکھ سکتا جبکہ اسکا کام ہی یہی تھا۔

اگرچہ  یہ کہانی غیر مستند دکھائی دیتی ہے لیکن اس میں سچائی کا عنصر موجود ہے۔ جیسا کہ  فائنر لکھتا ہے یہ ایک بد عنوان اور مجنونانہ نظام تھا جس میں ریاست کا ہر ملازم اپنا اپنا حصہ وصول کیا کرتا تھا - جاگیردار کی تعیناتی بادشاہ کی  رضا سے ہوتی تھی اور وقتاً فوقتاً اس کا تبادلہ ہوا کرتا تھا تاکہ وہ کسی بھی علاقه میں اپنے قدم نہ جما سکے - چنانچہ وہ ہر ممکن طور پر کسانوں اور تاجروں کا خون نچوڑا کرتا تھا -اسے اس بات سے کوئی سروکار نہ تھا کہ وہ ٹیکس دینے والوں کے حالت کو بہتر بناۓ۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں بھی کوئی بہتری نہ آسکی  کیونکہ کمپنی بہادر کے ملازموں  کا مطمع نظر یہ تھا کہ  وہ لندن میں اپنے شیئر ہولڈروں کے لئے زیادہ سے زیادہ منافع کمائیں،  اس دوران انہوں نے بھی خوب مال بھی بنایا۔

لیکن استحصال کے اس دور میں بھی رشوت ستانی کے جرم میں وارن ہیستنگز کا پارلیمنٹ میں مواخذہ ہوا ، اگرچہ اسے اس الزام میں بری کر دیا گیا -اس الزام میں سچائی کہاں تک تھی ،کچھ کہا نہیں جا سکتا-  لیکن جب وہ ریٹائر ہوا تو ایک دولتمند آدمی تھا اور یہی کچھ ان" سفید فام نوابوں"کے ساتھ ہوتا تھا جوایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم تھے۔ -

١٨٥٧کی بغاوت کے بعد جب ہندوستان میں براہ راست تاج برطا نیہ کی حکومت قائم ہوئی تو اس کے بعد ہی یہ کوششیں ہوئیں کہ ملک کا نظم و نسق دیانتداری سے چلایا جاۓ اور بہتر کارکردگی دکھائی جاۓ - ملکہ وکٹوریہ کے زمانے میں نظم و نسق کے معاملات میں اخلاقیات کو مرکزی اہمیت دی گئی اور راج کے ملازمین سے یہ توقع کی گئی کہ وہ مقامی لوگوں کے ساتھ صداقت اور سچائی سے پیش آئینگے۔

وکٹوریہ اور اس کے بعد ایڈورڈ کے مختصردور حکومت میں ہندوستان میں ایک صاف ستھری انتظامیہ کا تخیل پیش کیا گیا۔خیالی دنیا میں رہنے والوں ہمارے عصر حاضر کے لوگ اس دور حکومت کا ذکر کرتے رہتے ہیں یہ سوچے بغیرکہ یہ دور اسلامی دور نہیں تھا - اگرچہ یہ بات بڑی حد تک درست ہے کہ اس زمانے میں برطانوی سرکاری ملازمین اور ان  کے ہم رتبہ ہندوستانی افسر بڑی حد تک دیانتدار ہوا کرتے تھے اور انڈین سول سروس میں انکی تعیناتی اعلیٰ درجہ کے مسابقتی امتحان کے بعد ہوا کرتی تھی۔

لیکن یہی بات نچلی سطح کے ملازمین کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی - پٹواریوں اور پولیس والوں کی تعیناتی میں روایتی طریق کار سے کام لیا جاتا تھا۔ -

۔"اوپر  کی کمائی" یا ناجائز کمائی روز مرہ کا معمول تھی نہ کہ استثنیٰ-

برطانوی ہند میں افسرشاہی کے سینئر ملازمین میں کم سطح کی بدعنوانی کی ایک وجہ انکی بڑی تنخواہیں تھیں دوسری وجہ یہ تھی کہ ترقیاتی مصارف کم ہوا کرتے تھے- اگرچہ مغلوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ رقم صرف کی جاتی تھی تب بھی آج کے مقابلے میں اس کا تناسب بہت کم تھا۔

جہاں کروڑوں روپے کے تعمیراتی کام ہوں اور لین دین کے معاہدے کئے جائیں وہاں رشوت کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے - تاریخی لحاظ سے اور روایتی طور پر بھی ریاست اس ماں کی طرح ہے جسے قدرت نے فیاضی سے دودھ کی دولت سے نوازا ہے. اور وہ سیاست داں ہوں یا سرکاری افسریا تجارت پیشہ افراد سب  کے سب یکساں طور پر اس کا خون چوستے ہیں۔ .

ایک مثالی معاشرے میں بدعنوانیوں کو مکمل طور سے قابو میں کیا جا سکتا ہے -حقیقت تو یہی کہ بہت سے ترقی یافتہ ممالک اپنے نظام سے بدعنوانی کو ختم کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہو چکے ہیں.ان سارے ممالک میں غیرجانبداری کے ساتھ قانون کا نفاذعمل میں لایا جاتا ہے .ان کی عدلیہ انتہائی ایماندارہے .

صدافسوس کہ مسلم دنیا میں اور خاص طور پر پاکستان میں یہ دونوں چیزیں ناپید ہیں- ہمارے معاشرہ میں قبیلے  اوربرادریاں اتنی طاقتور ہیں کہ قانون شکنی کرنے  والے بآسانی بچ نکلتے ہیں - ایک بار جب یہ ثابت ہو جاۓ کہ نظام غیر مساویانہ ہے تو ہر کوئی بچ نکلنے کا راستہ تلاش کر لیتا ہے اور پھر سبھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

میں نے١٩٦٧  میں سول سروس کی ملازمت اختیار کی تھی اور ان دنوں اعلیٰ سطح کی افسر شاہی میں بدعنوانی نسبتاً کم تھی -١٩٧٧ میں بھٹو حکومت کا خاتمہ کرنے کے بعد ضیا نے ہر ممکن کوشش کی کہ ان کے خلاف بدعنوانی کے الزام کو ثابت کیا جاۓ - لیکن بھٹو کے خلاف جو وہایٹ پیپر نکالا گیا اس میں ضیاء اپنے محسن اور دشمن پر ایک بھی الزام ثابت کرنے میں کامیاب نہ ہوا - لیکن اس کے بعد گزشتہ دو دہائیوں میں جو حکمران سامنے آئے ہیں ان کے خلاف بدعنوانیوں کے الزامات روز مرہ کا معمول بن گئے ہیں۔

ان   سب باتوں کو بیان کرنے کا مقصد قطعی یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے نظام سے اس کینسر کو، اس موزی مرض کو ختم کرنے کی کوشش نہ کریں - لیکن ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ کام اپنے آپ انجام نہیں پا سکتا -اس کے لئے ایک صاف ستھری، موثرعدلیہ کا ہونا ضروری اور ساتھ ہی سیاستدانوں کا ایسا طبقه ضروری ہے جو عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہوں اور جو محض اپنے حلقه کے تنگ مفادات سے جڑے ہوئے نہ ہوں۔

عرفان حسین

لکھاری کا ای میل ایڈریس irfan.husain@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 10 جولائی 2025
کارٹون : 9 جولائی 2025