پہلے نوٹ پھر پاکستان
ہماری قوم کسی کام میں آگے ہو یا نہ ہو باتیں کرنے میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں۔ عموماً خواتین اس کام میں ماہر ہوتی ہیں لیکن ہمارے یہاں مرد اور خواتین شانہ بشانہ یہ قومی فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔
عموماً خواتین جب جمع ہوتی ہیں تو ان کا پسندیدہ مشغلہ غیبت ہوتا ہے۔ محفل سے جو خاتون بھی غیر حاضر ہوں تمام خواتین مل کر اس کے متعلق ایسی گفتگو فرماتی ہیں کہ شیطان بھی کانوں کو ہاتھ لگا لیتا ہے۔ ایک خاتون سے ہم نے پوچھا کہ غیبت کر کے آپ کو کیا ملتا ہے؟ فرمانے لگیں سکون، دل کی بھڑاس نکل جاتی ہے۔ ہم نے پوچھا اور وہ جو آپ مردوں پر نکالتی ہیں وہ کیا ہوتا ہے؟ کہنے لگیں غصہ۔ ہم نے پوچھا کس بات کا؟ فرمایا، غیبت نہ کرنے کا۔
لیکن جب دو چار مرد مل بیٹھتے ہیں تو شامت پاکستان کی آجاتی ہے ہم سوچتے ہیں روزانہ اتنے کوسنے دئیے جانے پر بھی یہ ملک ابھی تک کیسے قائم ہے؟ ہمارے مرد اپنے تمام مسائل اور مشکلات کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیتے ہیں۔
اس ملک میں بجلی پانی نہیں ہے۔ پیٹرول اور گیس قطار لگا کر لینا پڑتا ہے۔ مہنگائی نے کمر توڑی ہوئی ہے امن و امان ناپید ہے کسی کی جان و مال محفوظ نہیں۔ غرض ہزار طرح کی برائیاں اس میں موجود ہیں۔ اور اس کا ذمہ دار کون؟
پاکستان اس کی حکومت اور اس کے لوگ۔ ہم نے ایک دانشور سے پوچھا ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟ جواب ملا کہ ہمارا ہر فرد اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کر نے کے لیے الزام ایسی چیزوں پر لگا دیتا ہے جو پلٹ کر اس سے کبھی جواب نہیں مانگتیں۔
بات مذاق سے شروع ہوئی تھی اور سنجیدہ ہو گئی۔ ابھی پچھلے دنوں ہمیں ایک بڑی کمپنی کے مالک اوران احباب نے جن کا سٹیٹس کم و بیش انہی جیسا ہے کی محفل میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ حسب معمول ہر کوئی پاکستان، اس کے لوگ، اس کے قانون اور حکومت کو کوس رہے تھے۔ ہم نے ان سے پوچھا آپ کے ہاتھ میں انگریزی شراب کا گلاس ہے آپ تمام حضرات آج سے چند سال پہلے روڈ ماسٹری کرتے تھے اور آپ لوگوں کے پاس چائے پینے کے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے۔ آج آپ کی فیملیاں امریکہ اور کینڈا میں منتقل ہو چکی ہیں۔ اور آپ انہیں پاکستان سے کما کر کھلا رہے ہو پاکستان نے آپ کے لئے اتنا کچھ کیا ہے۔ تو پھر آپ اس سے اور کیا چاہتے ہیں؟ ہمارے سوال پر پوری محفل میں خاموشی طاری ہو گئی۔
حضرت علی کا قول ہے "جس پر احسان کرواس کے شر سے بچو"۔ پاکستان نے ہم پر احسانا ت کی بارش کر دی اور ہم نے جواب میں کیا دیا؟ بس اپنی محفلوں میں اس کی غیبت ہی کرتے رہے اور یہ ملک بھی ایسا ڈھیٹ ہے جو اس کے خلاف زیادہ زہر اگلتا ہے اسی کو زیادہ نوازتا ہے۔
باتیں کرنے والے کا اس ملک میں مستقبل محفوظ ہے۔ آپ کو کچھ آتا ہو یا نہیں اگر باتیں کرنی آتی ہیں تو آپ ایک کامیاب سیاستدان، ڈاکٹر یا انجنےئر بن سکتے ہیں۔ بلکہ آج کل تو لکھنے والے صحافی کے مقابلے میں بولنے والے صحافی کی آمدنی سو گنا زیادہ ہوتی ہے۔
امیتابھ اپنی فلم "آزاد" میں کہتا ہے۔ اگر ہمارے سیاستدان لفظوں کے بجائے اناج اگل رہے ہوتے تو پورے دیش میں کوئی شخص بھوکا نہ رہتا۔ وہاں کے حالات بھی کچھ ہمارے یہاں کے ہی جیسے ہیں۔ آخر خمیر تو ایک ہی ہے۔
پچھلی چند دہائیوں میں ترقی کرنے کی رفتار میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہو چکا ہے ہماری نوجوان نسل تو باتوں میں اتنی آگے نکل گئی ہے کہ بغیر کوئی کام کئے، بغیر کوئی کشٹ اٹھائے کروڑ پتی بن جانا چاہتی ہے۔ کروڑوں کمانے سے بھی کبھی فرصت ملے گی تو پھر پاکستان کے بارے میں بھی سوچ لیں گے۔ ہمارے مشرف بھائی جو نعرہ لگاتے تھے "سب سے پہلے پاکستان" خود نوٹ بنانے پر لگ گئے ہیں اور لیکچر دینے کے مطلب باتیں کرنے کے لاکھوں ڈالر چارج کرتے ہیں۔
خرم عباس ایک ڈرامہ نگار ہیں اور کراچی کی دنیا ان کا خاص موضوع ہے













لائیو ٹی وی