سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی
اگر آپ کی طبیعت شدید خراب ہوجائے، سانس رک رک کر آنے لگے اور زندگی کی امید دم توڑنے لگے تو آپ سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی جا کر پاوں رگڑ رگڑ کر ذلت کی موت مرنے کے بجائے اپنے گھر میں عزت کی موت مرنے کو ترجیح دیں۔
ہماری والدہ مرحومہ کہتی تھیں اللہ دشمن کو بھی سرکاری ہسپتال نہ لے جائے۔ سرکاری اسپتال کی ایمرجنسی میں وہ تمام چیزیں ضرور موجود ہوتی ہیں جن سے ایک ہٹا کٹا صحت مند انسان باآسانی مارا جاسکتا ہے۔
سب سے پہلے تو ایمرجنسی کے دروازے پر تعینات چوکیدار کی شکل ہی اتنی خوفناک ہوتی ہے کہ مریض کا اسے دیکھتے ہی دہشت سے دم نکل جائے اگر وہ یہ صدمہ سہہ بھی جائے تو یہ خبر اسے مرحوم بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی کہ ڈاکٹر صاحب ایمرجنسی میں موجود نہیں ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری قوم کے مسیحاؤں کا دل ایمرجنسی میں کیوں نہیں لگتا؟ تو دنیا میں کون ایسا بد ذوق آدمی ہوگا جس کا دل ایمرجنسی جیسی خوفناک جگہ لگے گا۔ ہمارے مسیحاوں کا دل تو ہسپتال کے ائیرکنڈیشنڈ وارڈ میں موجود حوروں مطلب نرسوں میں لگا ہوتا ہے۔
یہاں ہمارے کہنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ سرکاری ہسپتال کی خوش اخلاق اور ہمدرد نرسز اپنے فرائض سے غفلت برت رہی ہوتی ہیں لیکن ترقی پانے کیلئے سینئر ڈاکٹرز کا خیال رکھنا بھی تو انکے فرائض میں شامل ہے۔
وہ کونسی چیزیں ہیں جو سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسیز کو خوفناک بناتی ہیں؟ مثلاً یہ بات ثابت کرنے کیلئے کہ ایمرجنسی میں زخمیوں کو فوری طبی امداد دی جاتی ہے کبھی چادریں تبدیل نہیں کی جاتیں اور ان پر پڑے خون کے دھبے بتا رہے ہوتے ہیں کہ زخمی نے کس طرح ایڑیاں رگڑ رگڑ کر یہاں دم توڑا ہے۔
ایمرجنسی میں موجود سوئپر فرش صاف کرنے کے بجائے مریضوں کی جیبیں صاف کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ ہمارے ہر دل عزیز دوست ڈاکٹر پٹو کو کراچی کے تمام ہسپتالوں کی ایمرجنسیوں میں کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ہم نے ان سے چند سوالات کئے۔
راقم: ڈاکٹر صاحب یہ بتائیں کیا ایمرجنسی میں دوائیں موجود ہوتی ہیں؟
ڈاکٹر پٹو: میاں ایمرجنسی میں آنے والے مریضوں کو دواؤں کی نہیں دعاؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔
راقم: تو مریضوں کیساتھ آنے والے لوگ احتجاج نہیں کرتے؟
ڈاکٹر پٹو: کرتے ہیں لیکن ہم انہیں یہ فلسفہ سمجھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ یہ دنیا فانی ہے اور ہر آدمی کی موت کا ایک دن معین ہے۔
راقم: کبھی کوئی افسر وغیرہ یہاں نہیں آتے؟
ڈاکٹر: آتے ہیں کیوں نہیں آتے، ایک دفعہ تو پچھلے وزیر اعلیٰ جو خود ایک ڈاکٹر بھی ہیں آگئے تھے۔
راقم: اچھا تو پھر؟
ڈاکٹر: رات کے تین بجے تھے میں اپنے روم میں سو رہا تھا اور نرسیں گانا وغیرہ سن رہی تھیں۔ چند انتہائی جاہل قسم کے مریض ہائے ہائے کر رہے تھے وزیر اعلیٰ کو دیکھ کر جس میں مزید اضافہ ہوگیا۔
راقم: پھر تو وہ بہت ناراض ہوئے ہونگے؟
ڈاکٹر: ہاں کہنے لگے آپ لوگ علاج کیوں نہیں کرتے. ہم نے جواب دیا جناب نا کوئی مشین سلامت ہے اور نا کوئی دوا موجود ہے، کیسے علاج کریں، بس دعا سے کام چل رہا ہے۔
راقم: پھر انہوں نے کچھ کیا؟
ڈاکٹر: جی ہاں ہمارے ساتھ مل کر اجتماعی دعا فرمائی، کافی مذہبی آدمی تھے۔
جناب جو ملک ایٹمی طاقت ہو اسکے سرکاری ہسپتالوں کو دواؤں اور مشینوں کی کیا ضرورت ہے۔ خوش قست ہیں وہ لوگ جو سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی جاتے ہیں، ہر طرح کی تکلیف اور اذیت اٹھا کر اس جہان فانی سے کوچ کر جاتے ہیں۔ کیونکہ ہم نے سنا ہے جو آدمی اس دنیا میں دکھ اور مصائب اٹھا لیتا ہے خدا اس کے گناہ معاف کردیتا ہے۔ لہذا ہماری سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسیز جنت میں جانے کا آسان راستہ بن رہی ہیں!
خرم عباس ایک ڈرامہ نگار ہیں اور کراچی کی دنیا ان کا خاص موضوع ہے













لائیو ٹی وی
تبصرے (1) بند ہیں