• KHI: Partly Cloudy 17.1°C
  • LHR: Partly Cloudy 9.7°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.8°C
  • KHI: Partly Cloudy 17.1°C
  • LHR: Partly Cloudy 9.7°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.8°C

سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی

شائع March 6, 2013

فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

اگر آپ کی طبیعت شدید خراب ہوجائے، سانس رک رک کر آنے لگے اور زندگی کی امید دم توڑنے لگے تو آپ سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی جا کر پاوں رگڑ رگڑ کر ذلت کی موت مرنے کے بجائے اپنے گھر میں عزت کی موت مرنے کو ترجیح دیں۔

ہماری والدہ مرحومہ کہتی تھیں اللہ دشمن کو بھی سرکاری ہسپتال نہ لے جائے۔ سرکاری اسپتال کی ایمرجنسی میں وہ تمام چیزیں ضرور موجود ہوتی ہیں جن سے ایک ہٹا کٹا صحت مند انسان باآسانی مارا جاسکتا ہے۔

سب سے پہلے تو ایمرجنسی کے دروازے پر تعینات چوکیدار کی شکل ہی اتنی خوفناک ہوتی ہے کہ مریض کا اسے دیکھتے ہی دہشت سے دم نکل جائے اگر وہ یہ صدمہ سہہ بھی جائے تو یہ خبر اسے مرحوم بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی کہ ڈاکٹر صاحب ایمرجنسی میں موجود نہیں ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری قوم کے مسیحاؤں کا دل ایمرجنسی میں کیوں نہیں لگتا؟ تو دنیا میں کون ایسا بد ذوق آدمی ہوگا جس کا دل ایمرجنسی جیسی خوفناک جگہ لگے گا۔ ہمارے مسیحاوں کا دل تو ہسپتال کے ائیرکنڈیشنڈ وارڈ میں موجود حوروں مطلب نرسوں میں لگا ہوتا ہے۔

یہاں ہمارے کہنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ سرکاری ہسپتال کی خوش اخلاق اور ہمدرد نرسز اپنے فرائض سے غفلت برت رہی ہوتی ہیں لیکن ترقی پانے کیلئے سینئر ڈاکٹرز کا خیال رکھنا بھی تو انکے فرائض میں شامل ہے۔

وہ کونسی چیزیں ہیں جو سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسیز کو خوفناک بناتی ہیں؟ مثلاً یہ بات ثابت کرنے کیلئے کہ ایمرجنسی میں زخمیوں کو فوری طبی امداد دی جاتی ہے کبھی چادریں تبدیل نہیں کی جاتیں اور ان پر پڑے خون کے دھبے بتا رہے ہوتے ہیں کہ زخمی نے کس طرح ایڑیاں رگڑ رگڑ کر یہاں دم توڑا ہے۔

ایمرجنسی میں موجود سوئپر فرش صاف کرنے کے بجائے مریضوں کی جیبیں صاف کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ ہمارے ہر دل عزیز دوست ڈاکٹر پٹو کو کراچی کے تمام ہسپتالوں کی ایمرجنسیوں میں کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ہم نے ان سے چند سوالات کئے۔

راقم: ڈاکٹر صاحب یہ بتائیں کیا ایمرجنسی میں دوائیں موجود ہوتی ہیں؟

ڈاکٹر پٹو: میاں ایمرجنسی میں آنے والے مریضوں کو دواؤں کی نہیں دعاؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔

راقم: تو مریضوں کیساتھ آنے والے لوگ احتجاج نہیں کرتے؟

ڈاکٹر پٹو: کرتے ہیں لیکن ہم انہیں یہ فلسفہ سمجھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ یہ دنیا فانی ہے اور ہر آدمی کی موت کا ایک دن معین ہے۔

راقم: کبھی کوئی افسر وغیرہ یہاں نہیں آتے؟

ڈاکٹر: آتے ہیں کیوں نہیں آتے، ایک دفعہ تو پچھلے وزیر اعلیٰ جو خود ایک ڈاکٹر بھی ہیں آگئے تھے۔

راقم: اچھا تو پھر؟

ڈاکٹر: رات کے تین بجے تھے میں اپنے روم میں سو رہا تھا اور نرسیں گانا وغیرہ سن رہی تھیں۔ چند انتہائی جاہل قسم کے مریض ہائے ہائے کر رہے تھے وزیر اعلیٰ کو دیکھ کر جس میں مزید اضافہ ہوگیا۔

راقم: پھر تو وہ بہت ناراض ہوئے ہونگے؟

ڈاکٹر: ہاں کہنے لگے آپ لوگ علاج کیوں نہیں کرتے. ہم نے جواب دیا جناب نا کوئی مشین سلامت ہے اور نا کوئی دوا موجود ہے، کیسے علاج کریں، بس دعا سے کام چل رہا ہے۔

راقم: پھر انہوں نے کچھ کیا؟

ڈاکٹر: جی ہاں ہمارے ساتھ مل کر اجتماعی دعا فرمائی، کافی مذہبی آدمی تھے۔

جناب جو ملک ایٹمی طاقت ہو اسکے سرکاری ہسپتالوں کو دواؤں اور مشینوں کی کیا ضرورت ہے۔ خوش قست ہیں وہ لوگ جو سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی جاتے ہیں، ہر طرح کی تکلیف اور اذیت اٹھا کر اس جہان فانی سے کوچ کر جاتے ہیں۔ کیونکہ ہم نے سنا ہے جو آدمی اس دنیا میں دکھ اور مصائب اٹھا لیتا ہے خدا اس کے گناہ معاف کردیتا ہے۔ لہذا ہماری سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسیز جنت میں جانے کا آسان راستہ بن رہی ہیں!


Khurram-abbas-blogs-80 خرم عباس ایک ڈرامہ نگار ہیں اور کراچی کی دنیا ان کا خاص موضوع ہے

خرم عباس

لکھاری نے پاکستان کے اسٹریٹجک معاملات کا تجزیہ کرتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

شانزے Mar 06, 2013 02:56pm
ڈاکٹرھمیشہ اپنے مریض کی بہتری چاہتا ھے مگر اس وقت کیا کیا جائے کہ جب مرہض کو دوا چاہیئے اور ھسپتال میں دوا نہیں اور ڈاکٹر کی تنخواہ اتنی زیادھ نہیں ھوتی کہ وھ ھر مریض کو جیب سے دوا خرید کر دے اگر اسی ھسپتال میں کوئی سیاسی مریض ھو تو اسے حکومتی خرچے پہ بازار سے مہنگی دوا لا کے صحتیاب کرنے کی ھر ممکن کوشش ھوتی ھے مگر یہی فنڈ غریب مریضوں پہ حکومت لگانے کی اجازت نہیں دیتی تو اس میں ڈاکٹر کا کیا قصور! یہ جو بظاہر نرسوں سے گپیں لگاتے رات کے دو بجے اپنے پلے سے چائے پیتے ڈاکٹر جو آپ کو نظر آتے ہیں کبھی ان سے یہ بھی پوچھا ھے کہ کتنی دیر سے وھ ایمرجنسی میں آن کال ہیں؟ جناب اکثر اوقات یہ بیچارے دو دو تین تین دن سے ڈیوٹی پہ ھوتے ھیں جو کہ نہ ڈاکٹر کی اپنی صحت کے لیے بہتر ھے اور نہ ہی مریض کی یہ کہاں کا انصاف ھے کہ آپ ان سے جانوروں سا کام کرائیں اور ساتھ یہ توقع کریں کہ وھ نہ کھایں نہ پیئں نہ گھر جایئں آپ کو ھمیشہ تروتازھ مسکراتے ملیں اور ھو سکے تو پلے سے دوا بھی خرہد کے دیں جس تنخواھ میں یہ لوگ کام کر رہے ھوتے ھیں وھ نہ ہی پوچھیں تو بہتر ھے، بھرم رہنے دیں. اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس ملک کے سرکاری ھسپتالوں کی حالت بہتر ھو تو پھر زرداریوں شریفوں سمیت سب سیاسی لوگوں ججوں جرنیلوں کو انہی ھسپتالوں سے علاج کروانا ھو گا ورنہ بیٹھے رہیں یونہی روتے  

کارٹون

کارٹون : 18 دسمبر 2025
کارٹون : 17 دسمبر 2025