تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز --.
تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز --.

یہ اس نوآبادیاتی عہد کی داستان ہے جب ریلوے کی پٹریاں برصغیر کے طول وعرض میں بچھائی جارہی تھیں۔ اُس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ ریلوے کی یہ پٹریاں اہلِ ہندوستان کے طرزِ معاشرت میں اس قدر وسیع تبدیلیوں کا باعث بنیں گی اور اُن کی زندگیوں کا جزوِ لاینفک بن جائیں گی۔

ریل گاڑی جدائی کا استعارہ ٹھہری اور قرب کی علامت بھی قرار پائی۔ زبانی طور پر منتقل ہونے والی ریل سے جڑی لوک روایت کی جھلک پنجابی ثقافت و معاشرت میں دیکھی جاسکتی ہے۔ پنجابی زبان کی صنف ’ماہیا‘ میں اس کا اظہار کچھ یوں ہوتا ہے:

گڈی پاگئی کالا دُھوں کُڑیاں وچوں میں سوہنی منڈیاں وچوں سوہنا توں

یہ ماہیا اُس دور کی یاد دلاتا ہے جب سٹیم انجن کی ایجاد نے ریلوے کی ترقی میں نہایت اہم کردار ادا کیا تھا۔ سٹیم انجن جب شور مچاتے کھیت کھلیانوں سے گزرتے تو اپنے پیچھے سیاہ دھوئیں کے بادل چھوڑ جاتے۔

ریلوے پٹریوں کے اردگرد بسے دیہاتوں کی الہڑ مٹیاریں اور گھبرو جوان ریل گاڑی کو دیکھنے کے بہانے اپنے گھروں کی دہلیز پر آکھڑے ہوتے، ان کی آنکھیں چار ہوتیں اور وہ ایک ایسے بندھن میں بندھ جاتے جو اس سیاہ دھوئیں کی طرح عارضی نہیں تھا کہ آسمانوں میں کہیں کھو جاتا، بلکہ یہ تعلق اس دھاتی سٹیم انجن سے کہیں زیادہ مضبوط تھا۔

یہ ٹرین کتنے ہی دلوں کی دھڑکنوں میں بے ترتیبی کا باعث بنتی۔ کچھ الہڑ مٹیاریں اپنے محبوب کی آمد کی منتظر ہوتیں جو دور کہیں کسی محاذ پر جنگ لڑ رہا تھا یا پھر شہر میں ’بابو‘ بننے کے لیے گیا تھا اور کتنے ہی برسوں سے واپس نہیں لوٹا تھا۔ پنجابی زبان کی صنف ’بولی‘ میں اس غم و یاس کا اظہار کچھ یوں ہوتا ہے:

میرے یار نوں پچھے چھڈ آئی ایں نی ٹُٹ جائیں ریل گڈیے!

آئیے آپ کو لاہور میں پہلے ریلوے سٹیم انجن کی ’آمد‘ کی داستان سناتے ہیں جس سے آنے والے برسوں میں کتنے ہی تشنہ خوابوں اور ارمانوں نے منسلک ہونا تھا۔

مارچ 1862ء کی ایک خنک شام تھی جب اہلِ لاہور نے اولین ریلوے سٹیم انجن کو دیکھا۔ اگرچہ اُس وقت لاہور سے امرتسر تک ریلوے کی پٹریاں بچھائی جاچکی تھیں لیکن ان کا باقاعدہ افتتاح اپریل کے دوسرے ہفتے میں ہونا تھا۔

لاہور سے سب سے قریب واقع بندرگاہ کراچی تھی، چنانچہ لاہور میں پہلا سٹیم انجن کراچی کے ذریعے ہی درآمد کیا گیا۔ یہ سٹیم انجن دریائی راستے کے ذریعے لاہور لایا گیا۔ یہ ایک طویل اور سست سفر تھا۔ کراچی بندرگاہ سے یہ سٹیم انجن پہلے دریائے سندھ کے مغرب میں واقع شہر کوٹری لے جایا گیا اور وہاں سے اسے انڈس سٹیم فلوٹیلا کمپنی کی کشتی پر منتقل کر دیا گیا جس نے اسے لاہور تک پہنچانا تھا۔

دریائے سندھ اور دریائے چناب سے ہوتے ہوئے یہ کشتی 34روز میں ملتان پہنچی۔ ملتان سے لاہور تک کا سفر کچھ جلدی طے ہوگیا اور بالآخر وہ دن آگیا جس کا لاہور کے باسیوں کو شدت سے انتظار تھا۔ کشتی دریائے راوی کی لہروں پر سوار لاہور میں داخل ہوئی۔

لاہور میں دریائے راوی کے کنارے پر کشتی سے اس ریلوے انجن کو اتارا گیا اور اسے شہر (چوبرجی کے مقام پر) میں لایا گیا جہاں معززینِ شہر اور عوام کی ایک بڑی تعداد جمع تھی۔

دریائے راوی سے چوبرجی تک ریلوے کی کوئی پٹری نہیں تھی، چناں چہ اس دیوقامت ریلوے انجن کو بیلوں اور ہاتھیوں کی مدد سے اس مقام تک لایا گیا۔ ’لاہور کرانیکل‘ نے مارچ 1862ء کی اشاعت میں پہلے ریلوے سٹیم انجن کی لاہور آمد کا ان الفاظ میں ذکر کیا:

’’گزشتہ بدھ کا روز لاہور کے لیے ایک عظیم خوش خبری لے کر آیا جسے طویل عرصہ تک پنجاب میں ایک نئے عہد کے آغاز کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس روز سہ پہر کے وقت ملتان روڈ پر خوبصورت اور کسی حد تک تباہ حال دروازے ’چار برج‘ کے قریب انگریز حکام اور مقامی شہریوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہوئی۔ خواتین کے لیے الگ سے شامیانے لگائے گئے تھے اور ان کی تفریحِ طبع کے لیے موسیقی کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔‘‘

کراچی میں اس سے قطعی طور پر برعکس صورتِ حال پیدا ہوگئی تھی۔ وہاں جب اولین ریلوے انجن آیا تو لوگوں نے اسے ماورائی مخلوق سے تعبیر کیا اور اس پر جوتے پھینکے۔ جیسا کہ ہندوستان کے دوردراز کے علاقوں میں جب دیہاتیوں نے پہلی بار ٹرین کو دیکھا تو وہ اسے خدا کا اوتار تصور کر بیٹھے۔ انہوں نے انجن سے نکلتے ہوئے دھوئیں سے کچھ ایسی عقیدت وابستہ کرلی کہ اپنی پیشانیوں پر لال تلک لگا لیا اور عقیدت کے اظہار کے لیے پٹریوں پر پھول اور پیسے نچھاور کیے۔

فیری کوئین (Fairy Queen) بھی ایک ایسا ہی سٹیم انجن ہے جو ماضی میں ہندوستان کے دیہاتیوں کی عقیدت کا محور رہا ہے۔ 1855ء میں بننے والا یہ انجن اب بھی ہندوستان میں ریلوے پٹریوں پر سیٹی بجاتا دیہاتیوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ گینز بک آف ریکارڈز کے مطابق یہ دنیا کا قدیم ترین سٹیم انجن ہے جو اس وقت بھی ریلوے کی پٹریوں پر دوڑ رہا ہے.

اگر آپ ’فیری کوئین‘ پر شاہوں کے دیس راجستھان کا سفر کرنا چاہتے ہیں یا پھر گجرات کی عظیم تاریخ کے مظاہر دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ’چلتا پھرتا محل‘ (Palace on Wheels) آپ کابہترین انتخاب ثابت ہوسکتا ہے۔ 1982 ء میں ہمسایہ ملک کے یومِ جمہوریہ کے موقع پر انڈین ریلوے کی جانب سے شروع کی گئی یہ لگژری ٹرین دنیا کی چار بہترین لگژری ٹرینوں میں سے ایک ہے۔

یہ ٹرین آپ کو ماضی کے سفر پر لے جاتی ہے اور محض ’فیری کوئین‘ ہی اس کی کشش کا باعث نہیں ہے بلکہ اس ٹرین کی بوگیاں شاہی دور کی یاد دلاتی ہیں جس کا یہ مطلب یہ ہے کہ آپ کی ذاتی بوگی ہو جیسا کہ شاہی ریاستوں راجپوتانہ اور گجرات کے نوابوں، نظام آف حیدرآباد اور وائسرائے آف انڈیا کے زیرِ استعمال تھیں۔

14بوگیوں پر مشتمل اس ٹرین کی بوگیوں کے نام مختلف راجپوت ریاستوں سے منسوب کیے گئے ہیں۔ ٹرین میں دو ریستوران ’مہاراجہ‘ اور ’مہارانی‘ ہیں جہاں سے آپ ہندوستانی، چائنیز اور راجستھان کے روایتی کھانوں کا لطف حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ ٹرین نئی دہلی سے چلتی ہے اور پورے راجستھان کا چکر لگاتی ہے ۔

راجستھان کے آٹھ روز پر مشتمل اپنے سفر کے دوران یہ مختلف مقامات پر پڑاؤ کرتی ہے۔ یوں آپ ’فیری کوئین‘ پر ہندوستان کی تاریخ کے اہم ابواب سے روشناس ہوسکتے ہیں۔

لاہور میں ریلوے کی مغلپورہ ورکشاپ کے باہر کھڑا سٹیم انجن پاکستان میں افتادِ زمانہ سے بچ جانے والا قدیم ترین سٹیم انجن ہے۔ یہ 1876ء میں برطانیہ میں بنا اور اس کا نام ’ایگل‘ (Eagle) ہے جو اب ماضی کی ایک یادگار بن کر رہ گیا ہے۔

اگرچہ اس وقت پاکستان ریلوے کے تمام انجن ڈیزل سے چلتے ہیں لیکن قدیم طرز کے چند سٹیم انجن اس عہد کی یاد دلاتے ہیں جب یہ شور مچاتے ریلوے پٹریوں پر رواں دواں تھے۔

جاری ہے...


ali zaef-80 علی ظیف صحافی اور پرجوش کہانی کار ہیں اور قلم کے ذریعے اپنے جذبات و احساسات کی عکاسی کرتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں