فتویٰ کمیشن
آج کل ہمارا الیکشن کمیشن انتخاب لڑنے والے امیدواروں کا انٹرویو کر کے اہل اور نا اہل کے فتوے جا ری کر رہا ہے۔ یہ تمام کاروائی آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت کی جا رہی ہے۔ لیکن ابھی تک یہ بات واضح نہیں کی گئی ہے کہ جو ریٹرننگ آفیسر امیدواروں سے چبھتے ہوئے سوالات کر رہے ہیں خود آرٹیکل 63 اور 63 پر پورے اترتے ہیں یا نہیں۔
پاکستان میں 90 فیصد لوگ سرکاری ملازمتوں تک سفارش یا پیسہ کھلا کر پہنچتے ہیں باقی دس فیصد حضرات جو میرٹ پر سرکاری افسر بنتے ہیں اپنے سامنے بہتی گنگا کو دیکھ کر خود پر قابو نہیں رکھ پاتے اور خود بھی اس کے مقدس پانی سے ہاتھ دھو لیتے ہیں۔
یہ بات تو صاف ہے جو حضرات انتخابی عمل سے گزر کر اس قوم کی باگ ڈور سنبھالنے والے ہیں انہیں سورۃ اخلاص، دعائے قنوت اور اپنا قومی ترانہ تو ضرور یاد ہونا چاہیے۔ حیرت انگیز طور پر اس کڑے امتحان میں جہاں بڑے بڑے لوگ ناکام ہو گئے وہاں مسرت شاہین نے جو پشتو فلموں کی مشہور ہیروئن رہی ہیں نہ صرف سورۃ اخلاص بلکہ آیت الکرسی سنا کر ریٹرننگ افسر کا منہ بند کر دیا۔
مولانا فضل الرحمان جو اپنی ساری عمر سیاسی جد وجہد میں لگا کر اس مقام تک پہنچے ہیں مسرت شاہین فقط سورۃ اخلاص اور آیت الکرسی سنا کر ان کے مقابلے پر کھڑ ی ہو گئیں۔
ویسے الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی لیڈر بننے کا آسان فارمولا پبلک کے سامنے رکھ دیا ہے بس آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ پوری نمازیں دعائیں زبانی یاد کرنی ہیں اور حرف بحرف پکا رٹا لگانا ہے۔ بن گئے آپ سیاسی لیڈر! نہ تو آپ کو جیل جانے کی ضرورت ہے نہ کوڑے کھانے کی، نہ مظلوم اور پسے ہوئے مظلوم عوام کے حق میں جلسے جلوس اور ریلیاں نکالنے کی ضرورت، نہ بلند آواز میں حکومت کے خلاف نعرے لگانے کی ضرورت۔
علمدار حیدر ایک مڈل کلاس سیاسی لیڈر رہے ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی سیاست کی نذر کردی جوانی میں مزدوروں کے حق میں آواز اٹھانے کے خلاف پاکستان ٹول فیکٹری سے نکالے گئے اور ضیا الحق کے دور میں تین دفعہ جیل بھیجے گئے اور چھ سال کی قید کاٹی۔ گھر بار سب کچھ قربان کرنے کے بعد پارٹی برسراقتدار آئی تو پتہ چلا گلی کوچوں کی سیاست کچھ اور ہوتی ہے اور اقتدار کی کچھ اور! آج ایک نجی ٹی وی چینل پر نوکری کرتے ہیں جس کا مالک ایڈورٹائزنگ کی دنیا کا بڑا نام ہے۔ کڑی دھوپ ہو یا سردی رپورٹنگ کرتے ہیں۔ اور چھ چھ مہینے تنخواہ نہ ملنے کا مزہ الگ اٹھاتے ہیں۔
اب ایک ایسا آدمی جس نے ساری زندگی حرام خوری میں گذاری ہو، علمدار حیدر کو قومی ترانہ یاد نہ ہونے پر یا یہ کہ پھلوں اور سبزیوں کے نام انگریزی میں معلوم نہ ہونے پر ان کی ساری سیاسی جدوجہد پر لات مار سکتا ہے۔ اسے کہتے ہیں انصاف کا بول بالا اور سیاست میں ساری زندگی خوار و برباد ہونے والوں کا منہ کالا!
جمشید دستی جو کوئی جاگیردار یا وڈیرے نہیں ہیں اپنی ساری زندگی جمہوریت کی بحالی کے لئے قربان کر دی۔ اللہ اللہ کر کے پارٹی نے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا تو مشرف کی لگائی گریجویشن کی شرط آڑے آگئی کسی یار دوست نے جعلی ڈگری بنوا کر یہ مسئلہ حل کر دیا اور دستی صاحب اسمبلی تک پہنچ گئے۔ لیکن عدالتوں کے اعتراض کرنے کے بعد استعفیٰ دینا پڑا۔ پارٹی نے ایک بار پھر ضمنی الیکشن میں کھڑا کر دیا اور عوام نے دوبارہ انہیں اپنا لیڈر منتخب کر لیا۔ اس بار عدالتوں نے ان کی جعل سازی کا پکا انتظام کرتے ہوئے ان پر نقد جرمانے کے ساتھ ساتھ تین سال کے لئے جیل بھیج دیا۔ اور ساری زندگی انتخابات نہ لڑنے کے لئے نا اہل بھی قرار دے دیا۔
ایاز میر صاحب ایک بے باک اور دلیر صحافی ہیں اور سیاسی کارکن بھی، ان کے ایک آرٹیکل کو پاکستان کے خلاف دشمنی پر مبنی قرار دے دیا گیا۔ پہلے ہمارے یہاں فوج لوگوں کو غدار وطن کا ایوارڈ دیا کرتی تھی اب یہ کام ہماری عدالتوں اور نیب جیسے اداروں نے سنبھال لیا ہے۔
اب جو کلچر فروغ پا رہا ہے کل کوئی ڈاکٹر کسی اسپتال میں نوکری حاصل کرنے کے لئے جائے گا تو اس سے سوالات پوچھے جائیں گے کے کیا آپ حج و عمرہ کر چکے ہیں؟ پاکستان میں پائی جانے والی معدنیات کا نام بتائیں۔ یا آپ کو یہ تو ضرور پتہ ہوگا کہ پاکستان میں پہلی بار زلزلہ کب آیا؟
اب آئین میں ترامیم کے بعد کوئی مزدور جو اپنے حق کے لئے آواز اٹھاتا ہے کوئی کسان، کوئی دکاندار، کوئی ریڑھی والا ہماراسیاسی لیڈر نہیں بن سکتا کیونکہ یہ صرف رٹا اور نقل کے ذریعے گریجویشن کرنے والوں کا کام ہے۔
خرم عباس ایک ڈرامہ نگار ہیں اور کراچی کی دنیا ان کا خاص موضوع ہے













لائیو ٹی وی
تبصرے (1) بند ہیں