nationalists parties in Pakistan 670
سندھ میں قوم پرستوں کی پالیسیوں کا تمام تر فائدہ پیرپگارہ اور نواز شریف کو پہنچا۔ —. فوٹو پی پی آئی

دنیا بھر میں قوم پرستی ایک طاقتور نعرہ رہا ہے۔ متحدہ پاکستان کے زمانے سے ملکی سیاست پر قوم پرستوں کی چھاپ رہی۔ قوم پرستی کے نعرے پر عوامی لیگ دو مرتبہ مشرقی پاکستان میں الیکشن سوئیپ کیے۔ اس کے بعد نئے پاکستان میں تین چھوٹے صوبوں میں قوم پرست تحریک خاصی سرگرم رہی۔ کوئی بھی اتحاد قوم پرستوں کی شرکت کے بغیر مکمل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس کا عکس گاہے بگاہے ملکی سیاست اور انتخابات میں نظر آتا رہا ہے۔

پاکستان میں قوم پرستی کی وسیع بنیاد ون یونٹ کے قیام کے بعد پڑی۔ ان کا بنیادی مطالبہ وفاق سے زیادہ سے زیادہ اختیارات صوبوں کو منتقل کرنا اور پنجاب کی بالادستی کو ختم کرنا رہا ہے۔قوم پرست جمہوری اور روشن خیال سوچ کے ساتھ رہے ہیں۔

حالیہ صورتحال کچھ اس طرح سے ہے کہ خیبر پختونخوا کے قوم پرست پانچ سال حکومت کرنے کے بعد ایک بار پھر تمام رکاوٹوں کے باوجود مؤثرانداز میں انتخاب لڑ رہے ہیں۔ انہیں افغان جنگ اور اس کے بعد کی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ یہاں کے قوم پرست پیپلز پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں۔

سندھ اور بلوچستان کی صورتحال مختلف ہے۔ سندھ کے قوم پرست نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں ۔بلوچستان میں قوم پرستی کے دو واضح کیمپ بن گئے ہیں۔ ان دو صوبوں میں جامع اور واضح حکمت عملی کی غیر موجودگی میں الیکشن کا موقعہ ان کی سیاست کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت نہیں ہورہا۔

گزشتہ الیکشن کے اعداد وشمارسے پتہ چلتا ہے کہ 1970ءسے لیکر 2008ء تک ملک کا ووٹ چار حصوں میں تقسیم رہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، مذہبی جماعتیں اور قوم پرست جماعتیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان 75فیصد ووٹ تقسیم ہوتا ہے۔ باقی 25 فیصد ووٹ قوم پرست اور مذہبی جماعتوں یا آزاد امیدواروں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔

قوم پرست سیاست بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں مضبوط پارلیمانی طاقت کے طور پر رہی ہے۔ بلوچستان کی قوم پرستی مسلح جدوجہد کی انتہا تک چلی گئی ہے۔ جبکہ سندھ کی قوم پرستی غیر پارلیمانی مگر احتجاجی تحریک کے طور پر موجود ہے۔

سندھ کی قوم پرست تحریک پارلیمانی سیاست میں اس وجہ سے بھی نہیں ہے کہ اس تحریک کے بانی جی ایم سید نے  70 کے انتخابات کے بعد پارلیمانی سیاست کو خیرباد کہا تھا۔ البتہ حالیہ برسوں میں ایک بار پھر سندھ کے قوم پرست پارلیمانی سیاست میں جگہ تلاش کر رہے ہیں۔

پختون قوم پرست تحریک قیام پاکستان سے پہلے باچا خان کی سُرخ پوش حامیوں کی وجہ سے پہچانی جاتی تھی۔ وہ اس خطے میں ایک مؤثر طاقت تھی۔ عوامی نیشنل پارٹی جو پہلے نیشنل عوامی پارٹی کی شکل میں تھی اب بھی وہ خیبر پختونخوا میں حکمراں پارٹی ہے۔ آج پانچ سال کی حکمرانی کی وجہ سے آج لوگوں کا غم و غصہ اس پارٹی کے حصے میں آیاہے ۔

2008ء میں وادیٔ پشاور کی قومی اسمبلی کی 13 نشستوں کے بلاک، مالاکنڈ ایجنسی کے 8نشستوں کے بلاک میں سے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کرجیتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ جنوبی پختونخوا میں ہنگو، کرک، اور کوہاٹ سے کامیابی حاصل کی تھی۔ ملک کی اہم پارٹی نواز لیگ کا اثر خیبر پختونخوا کے ہزارہ ڈویژن میں ہے۔

خیبر پختونخوا میں 2002ءکے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل نے پورے صوبے کی سیاست کو تہہ بالا کردیا۔ لیکن آج یہ مذہبی جماعتوں کا اتحاد منتشر ہے۔ اس کے حصے جمیعت علمائے اسلام، دفاع پاکستان، یا جماعت اسلامی ایک دوسرے کے خلاف انتخاب لڑ رہے ہیں۔

مبصرین کا خیال ہے کہ مذہبی ووٹ کا کچھ حصہ مذہبی جماعتوں کے علاوہ مسلم لیگ کو بھی پڑتا رہا ہے۔ لیکن مشرف دور میں مسلم لیگ کی عدم موجودگی اور مجلس عمل کے بے عمل ہونے کی وجوہات نے تحریک انصاف فیکٹرکو اُبھرنے کا موقعہ دیا۔ اس پچ پر کبھی متحدہ مجلس عمل سیاست کرکے کامیابی حاصل کرتی تھی۔

اب سیاست میں مذہبی عنصر کے ساتھ ساتھ انتہاء پسندی کا بھی اضافہ ہوا ہے۔ جو غیر ریاستی عنصر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ طالبان کی پوری کوشش ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی انتخابات سے پھر مزید  آگے چل کر حکومت سے دُور رہیں۔ لیکن یہ دونوں جماعتیں انتخابات سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔

بلوچستان قوم پرست سیاست کا مضبوط گڑھ ہے۔ جہاں قوم پرست تحریک پارلیمانی خواہ غیرپارلیمانی طریقوں چلتی رہی ہے۔ یہاں کے بلوچ اور پختون ایوانوں میں آکرموثر کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ میر غوث بخش بزنجو اور محمود خان اچکزئی بڑے پارلیمانی ستون رہے ہیں بلوچستان کی روایتی قیادت کے گزشتہ انتخابات اور اس کے بعد عوام سے دور رہنے کی وجہ سے نئے کھلاڑی میدان میں آگئے ہیں۔ جس کا فائدہ پیپلز پارٹی اور جے یوآئی کو پہنچا ہے۔

اختر مینگل کی انتخابی عمل میں واپسی کو اسلام آباد اور لاہور دونوں نے خوش آئندہ قرار دیاہے۔ لیکن مسلح جدوجہد میں مصروف بلوچ قیادت اختر مینگل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ بلکہ پہاڑوں میں موجود یہ لوگ انتخابات میں شرکت کو بلوچ مفادات کے خلاف قرار دے چکے ہیں۔

بلوچستان کی سیاست کے بعض اور بھی دلچسپ مناظر ہیں، اختر مینگل انتخاب لڑ رہے ہیں۔ ان کے بھائی جاوید مینگل ان لوگوں کے ساتھ ہیں، جو انتخاب لڑنے کو بلوچوں سے غداری کے مترادف سمجھتے ہیں۔ نواب خیربخش مری کے بیٹے حُربیار مری بلوچ لبریشن آرمی کے لیڈر ہیں۔ ان کے بھائی چنگیز مری نواز لیگ کی ٹکٹ پر کوہلو سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ برہمداغ بگٹی بلوچ ریپبلکن پارٹی کے قائد ہیں۔ جبکہ ان کے خاندان کے باقی لوگ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

بلوچ سیاست کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اختر مینگل خضدار سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ جہاں ان کے خلاف انتخابی اتحاد میں مولوی اور نیشنل پارٹی کے حاصل بزنجو ہیں۔ اختر اور حاصل کے والد صاحبان ماضی میں ایک دوسرے کے ساتھی اور بلوچ سیاست کے ستون رہے ہیں۔

یہ انتخابات ثابت کریں گے کہ بلوچ مزاحمتی تحریک جو ایک بڑی شناخت رکھتی ہے وہ وسیع بلوچ سیاست کے طور پر ابھر کر روایتی قبائلی مفاد سے کتنی باہر آسکی ہے۔ 14نشستوں والے صوبہ میں صرف پانچ حلقے بغاوت کی لپیٹ میں ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس بغاوت کا اثر باقی سیٹوں پر کتنا پڑتا ہے۔ یہ پاکستانی حکومت اور انتخابات میں حصہ لینے والی بلوچ قیادت دونوں کے لیے امتحان ہے۔

پیپلز پارٹی کا آبائی صوبہ اور مالی و معدنی وسائل سے مالامال سندھ کی قوم پرست تحریک بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ سندھ کی قوم پرست قیادت نے 70 کے بعد انتخابات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ عجیب صورتحال رہی ہے کہ قوم پرست ووٹ اپنی شناخت بنانے کے بجائے پی پی مخالفوں کی مدد کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔

سندھ کے قوم پرست جہاں پنجاب کی بالادستی کے خلاف جدوجہد کرتے ر ہے ہیں، وہاں وہ اسّی کے عشرے میں جنم لینے والے مظہر سے بھی نبردآزما ہیں، جو سندھ کی قومی وحدت کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی ایک شکل ایم کیوایم ہے۔ لہٰذا سندھ کے قوم پرست کبھی اس مظہر کے خلاف زیادہ زور دیتے ہیں، تو کبھی پنجاب کے ساتھ جھگڑے کو۔

قوم پرستوں کا مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد اور ایڈجسٹمنٹ ہوتا رہا ہے۔ ملک میں جب بھی فیصلہ کن موڑ آیا یا فیصلہ کن انتخابات ہونے لگے تو قوم پرستوں نے اسٹیبلشمنٹ کی حامی قوتوں کا ساتھ دیا۔ یہی اسٹیبلشمنٹ جس سے ان کو شکایت رہی ہے انہی کے حامیوں کے ساتھ اتحاد کرتی رہی ہیں، یا اُن کی سیاست کرتی رہی ہیں۔

صرف سندھ ہی نہیں یہ صورتحال اکثر اوقات ملک بھر کے قوم پرستوں کی رہی۔ بھٹو دور میں یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ بنا تو نیشنل عوامی پارٹی جو پاکستان کے قوم پرستوں کی پارٹی تھی، اس میں بلوچ اور پختون قوم پرست شامل تھے، وہ یوڈی ایف کاحصہ بنی۔ بعد میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک میں بھی یہ شامل رہی۔  88 ء میں انتخابات ہونے جارہے تھے تو سندھ قومی اتحاد بنا۔ یہ بھی پیپلزپارٹی کے خلاف تھا۔

اب ایک بار پھر سندھ کے قوم پرست نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں۔

پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ کارکردگی نے ایک بار پھر سندھ میں متبادل قیادت کا سوال اُٹھایا ہے۔ متنازع بلدیاتی نظام متعارف کرانے کے بعد یہ سوال شدت سے سامنے آیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس سوال کو سندھ کی مجموعی محرومی کے ساتھ جوڑ کر اس کو پنجاب کی روایتی بالادستی کے خلاف متحرک کیا جاتا۔

یہ المیہ ہے کہ اس قومی بیداری کی لہر کو صرف پی پی مخالفت تک محدود رکھا گیا۔ اور ان قوتوں کو پلیٹ میں رکھ کر دیا گیا جن کو پیپلز پارٹی کے خلاف انتخابات میں اِشو مطلوب تھا۔

پیپلز پارٹی نے صورتحال کو سمجھا اور اس مصیبت سے جان چھڑائی تو یہ تحریک بیٹھ گئی۔ بقول جامی چانڈیو کے قوم پرست سیاست کا تھرڈ آپشن پی پی مخالف اتحاد میں گم ہو گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ کوئی بہتر متبادل نہ ہونے کی وجہ سے واپس پی پی کی طرف چلے گئے۔

یہ ضرور ہوا کہ اس کا تمام تر فائدہ پیرپگارہ اور نواز شریف کو پہنچا۔ مسلسل جدوجہد کرنے والے مین اسٹریم سیاست کی رِنگ سے باہر کھڑے ہیں۔ سندھ کے بعض قوم پرست گروپ پہلے ہی پارلیمانی سیاست سے باہر تھے اور انتخابات میں حصہ لینے کے مخالف تھے۔ جو تین گروپ پارلیمانی سیاست کرنا چاہ رہے تھے، ان کی اسلام آباد اور لاہور سے حوصلہ افزائی نہ ہونے کی وجہ سے سندھ کی قوم پرست تحریک میں پارلیمانی سیاست نہ کرنے کے رجحان میں مزید اضافہ ہوگا۔

انتخابات کے بعد اس بات کا احساس ہوگا کہ الیکشن اپنے نعرے اور سیاست پر لڑی جاتی ہے۔ جیسے خیبر پختونخو اور بلوچستان کے قوم پرست لڑتے رہے ہیں۔ اور یہ کہ زرداری کے خلاف توانائی ضایع کرنا کتنی دانشمندی تھی۔

ریاستی اور غیر ریاستی عناصر انتخابی عمل اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس پر قوم پرستوں کا کوئی مؤقف نہیں۔ یہ اتحاد کر کے کراچی، حیدرآباد، سکھر، شکارپور اور لاڑکانہ میں بھی رجعتی عناصر کو اسپیس دیا گیا ہے۔ جس کے آنے والے وقتوں میں گھرے اثرات مرتب ہوں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں