کراچی، پی ٹی آئی اور متحدہ
انتخابات 2013 کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کی ایک دوسرے کے خلاف دھاندلی کا الزام لگایا جا رہا ہے جبکہ کراچی کے پس منظر میں یہ جھگڑا متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان شدت اختیار کر چکا ہے۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ اور کراچی کی فضا دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں سے نہایت گرم محسوس ہوتی ہے۔
کراچی جو پہلے ہی شدید تشدد کا شکار رہا ہے اب ایک نئی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا اگر یہ دونوں جماعتیں تھوڑی دیر کے لئے غصہ جسے حرام قرار دیا گیا ہے تھوک دیں یا حضرت علی کی طرح غصے کو میٹھے جام کی طرح پی جائیں تو شاید ہم انہیں سمجھا سکیں کہ یہ جنگ و جدل دونوں پارٹیوں کے لئے نہایت نقصان دہ ہے۔
اگر متحدہ قومی موومنٹ کے ماضی کا تجزیہ کریں تو انہیں سب سے بڑی کامیابی کراچی میں 2008 کے الیکشن میں حاصل ہوئی۔ اور ظاہر سی بات ہے اس کی ایکی بڑی وجہ متحدہ کی پرفارمنس تھی۔ متحدہ جس کے پاس صوبائی وزارت داخلہ کا قلمدان تھا پورے پانچ سال امن و امان کی صورتحال کو بڑی حد تک قابو میں رکھنے میں کامیاب ہوئی تھی اور پھر سب سے بڑی وجہ کراچی کے نوجوان ناظم اعلیٰ مصطفی کمال اور ان کی ٹیم کی دن رات کی وہ محنت تھی جس نے کراچی کو چار سالوں میں بدل کر رکھ دیا۔ دوست تو دوست دشمن بھی کہہ اٹھے کہ کام کرنا تو کوئی مصطفی کمال سے سیکھے۔
مصطفی کمال صاحب نے نہ صرف خود کام کیا بلکہ کراچی کے نوجوانوں کی بڑی تعداد کو یہ احساس دلایا کہ یہ شہر آپ کا اور اس کی ترقی اور سجاوٹ ان کی ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں کالج اور یونیورسٹی کے طلباء نے ان کے پروگرام میں رضا کارانہ طور پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
لیکن جب ہم متحدہ کی 2008 سے 2013 تک کی پرفارمنس دیکھتے ہیں تو وہ کافی مایوس کن ہے گو کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر ان کے پاس کوئی قابل ذکر اور اختیار وزارت حاصل نہیں تھی۔
لیکن بہرحال بلدیہ کراچی کے تقریباً اسی ارب روپے سالانہ بجٹ کو جو مجرمانہ طور پر صوبائی حکومت کے ذریعے ناجائز جگہ استعمال ہوتا رہا اور متحدہ محض تماشائی بنی رہی۔ ایک ایسی صوبائی حکومت جس نے کسی بھی شعبے میں چاہے وہ داخلہ ہو یا ترقیات کا۔ تعلیم میں ہو یا صحت کا، قابل ذکر نتائج دینے میں ناکام رہی اور آپ پانچ سال تک ان کے ساتھ اسمبلی میں بیٹھے سندھ کی عوام کو لٹتے دیکھتے رہے۔ نتیجتاً ہم دیکھ سکتے ہیں کہ متحدہ کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔
اب اگر ہم پاکستان تحریک انصاف کا تجزیہ کریں تو 2002 کے الیکشن میں عمران خان صاحب صرف ایک قومی اسمبلی کی سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے اور 2005 کے الیکشن کا انہوں نے بائیکاٹ کیا تھا۔ ۔وہ نوجوان جس نے پہلے پرویز مشرف کے انقلابی ایجنڈے کو لبیک کہا تھا مایوس ہو کر پاکستان تحریک انصاف کے بینر تلے جمع ہو گیا۔
کراچی کے وہ نوجوان جو مصطفی کمال کے شیدائی تھے عمران خان کے تبدیلی کے نعرے کے بعد ان کی طرف کھنچنا شروع ہو گئے. پاکستان تحریک انصاف جو تشدد، معاشرتی ناانصافی اور بد عنوانی کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہوئی تو نوجوانوں نے اس کا ساتھ دیا۔ جس کا اثر 2013 کے الیکشن میں ہم نے پورے پاکستان میں محسوس کیا۔ اورPTIایک بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری۔
اب اتنے بڑے ایجنڈے کو لے کر چلنے والے بھی دوسروں کی طرح عدم برداشت ، جذباتیت، اور دھرنوں کی سیاست کریں گے تو شاید وہ یہ سیاسی کامیابی زیادہ عرصے تک برقرار نہ رکھ سکیں۔ انہیں اپنے اس منشور پر قائم رہنا چاہیے جس کی بنیاد پر لوگوں نے گھر سے نکل کر انہیں ووٹ دیا۔
ہم متحدہ سے بھی امید رکھتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کا انتخابات میں متحدہ کے سامنے کھڑے ہونے کو مثبت طور پر لیں گے۔ اور جمہوریت کو فروغ دینے کے لئے PTI کے چیلنج کو قبول کریں گے اور اپنی پرفارمنس سے PTI کو شکست دیں گے، نہ کہ گالی گلوچ اور الزام تراشیاں کر کے۔
دوسری طرف ہم پاکستان تحریک انصاف سے بھی امید رکھیں گے کہ وہ خراب زبان، اور مظاہروں کی فضا ختم کر کے ایک صحت مند مقابلے کی فضا پیدا کریں گے۔ یہی ضرورت ہے آج کے پاکستان کی اور یہی خواہش ہے پاکستان کے عوام کی۔
خرم عباس ایک ڈرامہ نگار ہیں اور کراچی کی دنیا ان کا خاص موضوع ہے













لائیو ٹی وی
تبصرے (1) بند ہیں