سابق آئی جی آفتاب سلطان جو اب آئی بی کے سربراہ مقرر ہوچکے ہیں طارق پرویز کو شیلڈ پیش کررہے ہیں —فائل فوٹو
سابق آئی جی آفتاب سلطان جو اب آئی بی کے سربراہ مقرر ہوچکے ہیں طارق پرویز کو شیلڈ پیش کررہے ہیں —فائل فوٹو

اسلام آباد: کل بروز جمعرات مورخہ 6 جون وزیراعظم نواز شریف نے پولیس سروسز آف پاکستان (پی ایس پی) کے بائیس گریڈ کے آفیسر آفتاب سلطان کو انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا ہے۔

آفتاب سلطان پیپلزپارٹی کی حکومت میں اکتوبر 2011ء سے جولائی 2012ء کے دوران اسی عہدے پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ جب سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا تو انہوں نے بھی اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔

انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے قانون کے شعبے میں گریجویشن کیا بعد میں کیمبرج یونیورسٹی سے ایل ایل ایم اور ایڈنبرگ یونیورسٹی سے فلسفہ قانون اور لیگل اسٹڈیز کے شعبے میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی ۔ محکمہ پولیس میں اپنے پورے کیریئر کے دوران صاحب اقتدار شخصیات سے وہ دور دور رہے ، اسی لیے وہ لو پروفائل شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

سرگودھا میں 2002ء کے دوران بحیثیت ریجنل پولیس آفیسر کے آفتاب سلطان نے جنرل پرویز مشرف کے ریفرینڈم میں انتظامیہ کی مدد کرنے سے انکار کردیا تھا، یاد رہے کہ جنرل مشرف کو اس وقت ملک کا چیف ایگزیکٹیو کہا جاتا تھا۔ چنانچہ انہیں اس کا خمیازہ اس صورت میں بھگتنا پڑا کہ انہیں او ایس ڈی بنادیا گیا۔

ان کے کیریئر کی سب سے اہم بات پانچ ہزار صفحات کی ایک رپورٹ ہے جو انہوں نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر بحیثیت ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس، مشہور زمانہ بنک آف پنجاب کے مقدمے کے حوالے سے مرتب کی تھی۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے آفتاب سلطان کو بطور تفتیشی افسر مقرر کیا تھا۔

ڈان سے بات کرتے ہوئےایک سینیئر اہلکار نے کہا کہ آفتاب سلطان کے پولیس میں غیر متنازعہ کیریئر ہی کی وجہ سے انہیں آئی بی کا ڈی جی مقرر کیا گیا ہے۔ مذکورہ اہلکار کا کہنا تھا کہ نواز شریف تقریباً تیرہ سال کے طویل وقفے کے بعد ایوان اقتدار میں پہنچے ہیں، چنانچہ انہیں اس عہدے کے لیے ایک ایسے افسر کی ضرورت تھی جو شفاف پس منظر رکھتا ہو۔

انہوں نے کہا ”پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران جب ہر دوسرے سرکاری اہلکار پر انگلیاں اُٹھائی جارہی تھیں، آفتاب سلطان ان چند افسروں میں شامل تھے جو وفاقی حکومت کے ساتھ کام کررہے تھے، لیکن ان کے اوپر کرپشن کا کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا تھا۔“

بحیثیت آئی بی کے سربراہ کے طور پر آفتاب سلطان نئے وزیراعظم کے لیے خاص طور پر امن و امان کے معاملات میں ان کے آنکھ اور کان کا کام کریں گے۔ ماضی میں حکومتیں آئی بی کو اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرتی آئی ہیں۔

تاہم حال ہی میں انٹیلیجنس ایجنسیوں کے سیاست میں کردار پر بڑھتی ہوئی تنقید کی وجہ سے یہ خیال کیا جارہا ہے کہ آئی بی کے سربراہ کی توجہ اپنی بنیادی ذمہ داریوں کی ادائیگی پر مرکوز رہے گی، اور وہ  ایسے کرپٹ عناصر جو امن و امان کا مسئلہ پیدا کرتے ہیں کے بارے میں وزیراعظم کو باخبر رکھیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں