ہندوستان: ہم جنس پرستی کو جرم قرار دینے کا قانون بحال

11 دسمبر 2013
دہلی ہائی کورٹ نے تین جولائی، 2009 کو ہم جنس پرست تعلقات پر اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آئین کی دفعہ 377 کی اس شق، جس میں ہم جنسوں کے درمیان جنسی تعلق کو جرم قرار دیا گیا ہے، اس سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ جس پر ہم ہندوستانی ہم جنس پرستوں نے جشن منایا تھا، آج ہندوستانی سپریم کورٹ نے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرکے ہم جنس پرستی کو جرم قرار دینے والے قانون کو بحال کردیا۔ —. فائل فوٹو
دہلی ہائی کورٹ نے تین جولائی، 2009 کو ہم جنس پرست تعلقات پر اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آئین کی دفعہ 377 کی اس شق، جس میں ہم جنسوں کے درمیان جنسی تعلق کو جرم قرار دیا گیا ہے، اس سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ جس پر ہم ہندوستانی ہم جنس پرستوں نے جشن منایا تھا، آج ہندوستانی سپریم کورٹ نے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرکے ہم جنس پرستی کو جرم قرار دینے والے قانون کو بحال کردیا۔ —. فائل فوٹو

نئی دہلی: ہندوستان کی اعلٰی ترین عدالت سپریم کورٹ نے آج بروز بدھ گیارہ دسمبر کو دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو ”قانونی طور پر غلط“ قرار دیتے ہوئے بالغ ہم جنس پرستوں کے درمیان رضامندی کے ساتھ قائم کیے جانے والے جنسی تعلق کو غیر قانونی قرار دیا ہے ۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق جسٹس جی ایس سنگھوی اور ایس جے مکھوپدھایا پر مشتمل ایک عدالتی بینچ نے تعزیرات ہند کی دفعہ 377 کو دوبارہ درست قرار دیتے ہوئے اس کو بحال کر دیا ہے۔ جس کے تحت ہم جنسی تعلق ایک قابل سزا جرم ہے۔

دہلی ہائی کورٹ نے تین جولائی، 2009 کو ہم جنس پرست تعلقات پر اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آئین کی دفعہ 377 کی اس شق، جس میں ہم جنسوں کے درمیان جنسی تعلق کو جرم قرار دیا گیا ہے، سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

ہم جنس پرستوں نے اس فیصلے کو ہندوستان کی تاریخ کا ایک اہم ترین فیصلہ قرار دیا تھا، لیکن بعد میں کئی مذہبی تنظیموں مثلاً آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، اٹکال کرسچین کونسل اور اپولوسٹولک چرچز الائنس نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

بی بی سی ہندی کے مطابق ایک درخواست گزار اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن ظفرياب جیلانی نے اس موقع پر کہا کہ ”یہ بہت اچھا فیصلہ ہے، سپریم کورٹ نے بھارت کی اخلاقی اقدار اور صدیوں سے چلے آ رہے قانون کو برقرار رکھا ہے ۔“

ٹائمز آف انڈیا کے مطابق بچوں کے حقوق کے لیے دہلی کے کمشنر، تامل ناڈومسلم مون کازگم، ایس ڈی پرتیندھی سبھا، جوائنٹ ایکشن کونسل، رضا اکیڈمی، آسٹرولوجر سریش کمار کوشل، یوگاگرو رام دیو کے شاگرد ایس کے تجاراوالا، رام مورتی، بھیم سنگھ، بی کرشنا بھات نے بھی دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کی مخالفت کی تھی۔

دوسری جانب ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے طویل عرصے سے جدوجہد کرنے والے گوتم بھان کے مطابق دہلی ہائی کورٹ کا فیصلہ ناصرف قانونی طور پر ہم جنس پرستی کے لیے مددگار رہا بلکہ اس نے ذاتی سطح پر بہت سے لوگوں کی زندگی بدل دی تھی۔

سال 2001 میں ایڈز انفیکشن سے متعلق مسائل کے لیے کام کرنے والی تنظیم ناز فاؤنڈیشن نے دفعہ 377 کی اس شق کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا، جس میں ہم جنسوں کے درمیان جنسی تعلق کو جرم قرار دیا گیا ہے ۔یہ 148 سال پرانا قانون ہے جس کے تحت ہم جنس پرست تعلقات پر دس سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں