رہڑھی گوٹھ کے پراسرار مریض
کراچی: ایک ہاتھ گاڑی میں بیٹھے بارہ سالہ احمد نے ہمیں دیکھ کر اپنے خمیدہ ہاتھوں سے تالیاں بجانے کی کوشش کی جو رہڑھی گوٹھ میں اپنے گھر کی جانب جارہا تھا۔ گھر پہنچنے پر اس کا دوست اسے اُٹھا کر اندر گھر میں لے گیا۔ یہاں ہماری ملاقات احمد کی بڑی بہن اٹھارہ سالہ جمیلہ سے ہوئی جو نئے چہروں کو دیکھ کر بہت خوش تھی۔
' معاف کیجئے گا میں آپ کے استقبال کیلئے کھڑی نہیں ہوسکتی،' شکیلہ نے کہا۔ اس سے ظاہر تھا کہ وہ لوگوں سے بات چیت اور ملاقات کی خواہاں ہیں۔ وہ سیدھی بیٹھنے سے بھی قاصر تھی اور اسے بیٹھنے کیلئے تکیوں کا سہارا لینا پڑتا تھا۔
'میں جب چھوٹی تھی تو اسکول جاتی تھی لیکن پھر کچھ ہونے لگا۔'
پھر یو ہوا کہ میں چلتے ہوئے توازن کھونے لگی ۔ پھر یہ آہستہ آہستہ بڑھتا رہا اور میں یہاں تک پہنچ چکی ہوں اور یہ کہتے ہوئے وہ بہادری سے مسکرا رہی تھی۔
' کھانے کھلانے سے لے کر میری تمام چھوٹی بڑی ضرورتوں کیلئے مجھے میری ماں کی مدد چاہئے ہوتی ہے۔ ان میں ایسے کام بھی ہیں جو لوگ بنا سوچے کرتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ اب میں دوبارہ کھڑی نہیں ہوسکتی۔ لیکن کم از کم میر ذہن تو کام کررہا ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں اپنی تعلیم مکمل کروں۔ مجھے میرے اسکول، اور ٹیچرز سے محبت ہے،' اس نے اپنے آنسو چھپانے کی خاطر دوسری جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
شکیلہ کے والد، محد حمایتی نے بتایا کہ اس کے دونوں بچوں کو آٹھ سال کی ہی عمر میں اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ ' میری ایک اور بیٹی زلیخا کی عمر سات برس ہے اور اس میں بھی اب اسی مرض کےآثار نظر آرہے ہیں،' انہوں نے بتایا۔
' میں اپنے بچوں کو شہر کے ہسپتالوں میں لے گیا لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ کوئی مدد نہیں کرسکتے،' حمایتی نے کہا۔
شکیلہ کے گھر سے کچھ فاصلے پر دس سالہ عبدالرزاق اپنے اعضا میں تکلیف سے رو رہا تھا۔
' یہ بہت روتا ہے۔ ہم اسے وھیل چیئر پر رکھ کر دھوپ میں لے آتے ہیں جہاں کی تمازت سے اس کا درد کچھ کم ہوتا ہے،' اس کی ماں سکینہ نے کہا۔
رزاق اتنا کمزور ہے کہ لگتا ہے کہ صرف ایک سال کا ہے۔ اس کی وھیل چیئر اس کا بھائی عرفان دھکیل رہا تھا۔
سکینہ کے مطابق عرفان اس کا چھوٹا بیٹا ہے اور نارمل ہے اور وہ اپنے بڑے بھائی عبدالرزاق کی دیکھ بھال کرتا ہے۔
یہ ایک سال چھوٹا ہے، اس کی ماں نے کہا۔
عبدالرزاق کے بارے میں اس کی ماں نے کہا کہ اس بہت چھوٹی عمر میں شدید بخار ہوا تھا۔ اسے شہر کے ایک ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ 16 دن تک رہا۔ اگرچہ بخار اتر گیا لیکن اس کے بعد وہ بیٹھ نہیں سکا اور اس کی نشوونما بھی رک گئ۔
اس کے ساتھ ہی ایک بھینگی لڑکی رفیقہ بھی کھیل رہی تھی جس کے پاؤں ٹیڑے میڑھے اور بہت پتلے تھے۔ اس کے پاس ایک اور بچہ موجود تھا اور اس کی ٹانگیں بھی بہت پتلی اور خمیدہ تھیں۔
بچوں کے چچا نے بتایا کہ یہ دونوں آپس میں کزن ہیں اور بعض ڈاکٹر انہیں پولیو کا مریض کہتے ہیں اور بعض ہڈی کے مریض بتاتے ہیں۔
جمعہ گوٹھ میں عبدالرحیم نامی ایک شخص کا چھوٹا سا گھر ہے جس کے فرش پر ایک سولہ سالہ بچی لیٹی ہوئی ہے۔ اس کا نام جنت ہےاور یہ بینائی سے محروم ہیں۔
ایک چھڑی سے راہ ٹٹولتا ہوا اس کا بائس سالہ بھائی عبدالکریم بھی نابینا ہے۔ اس کے والد باہر جارہے ہیں اور وہ گھر میں رہنے کیلئے اندر آیا ہے۔ اس سے چند گز کے فاصلے پر خاندان کے چار اراکین ایک کچرے کے ڈھیر پر دھاتی ٹکڑے ٹٹول رہے ہیں ان میں سے ماں رخسانہ بی بی اور اس کا آٹھ سالہ بیٹا محمد رحیم بھی دیکھنے سے قاصر ہیں۔ اس خاندان میں والد اور ایک پانچ سالہ بچی گل بانو ہی دیکھ سکتی ہے۔
' میں اپنے گھر والوں کیلئے سب کچھ کرتا ہوں، کھانا پکاتا ہوں۔ میرے پاس ایک کشتی تھی جسے میں نے اپنے اہلِ خانہ کی کفالت کیلئے فروخت کردیا۔ اور اب میں اپنی تمام رقم کھو چکا ہے۔'
عبدالرحیم کے چھوٹےسے گھر میں آٹھ نابینا افراد بستے ہیں۔ یہ مکان بھی ایک غیرسرکاری تنظیم پاکستان فشر فوک فورم ( پی ایف ایف) نے بنوایا ہے۔ پی ایف ایف اس خاندان کو 8000 روپے ماہانہ دیتی ہے ۔
' یہ لوگ اپنے بچوں کیلئے بہترین طبی امداد چاہتے ہیں جو اس علاقے میں موجود نہیں۔ ان حالات میں اپنے بیمار بچوں کو انہیں ایک ماہ میں کم ازکم ایک یا دو مرتبہ شہر کے ہسپتال لے جانا پڑتا ہے۔ پی ایف ایف کے کمال شاہ نے بتایا۔
' کئی این جی او نے اس گھر کا دورہ کیا ہے۔ تھوڑی بہت مدد اور تحقیق کیلئے۔
اس کے علاوہ میڈیکل ٹیمیں بھی یہاں آتی رہتی ہیں جو صرف نومولود کا وزن کرتی ہیں لیکن ان کے علاج کیلئے دوبارہ لوٹ کر نہیں آتیں۔
یہاں ایک ہسپتال کی عمارت ہے جو دیہی صحت مرکز کے تحت قائم کیا گیا ہے ۔ یہاں الٹراساؤنڈ، ایکسرے اور ڈینٹل مشینیں ہیں اور سب مٹی کھارہی ہیں کیونکہ اسٹاف یہاں موجود نہیں۔ ڈاکٹر فنڈ کی کمی کی شکایت کرتے ہیں اور ایک چھوٹی ڈسپنسری موجود ہے۔
ڈسپنسری کے ایم ایس ڈاکٹر محمد عباس نےبتایا کہ ہمارے پاس تو بجلی اور پانی بھی نہیں ہے۔ ہم گریڈ اٹھارہ اور انیس کے ڈاکٹر ہیں لیکن بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
ہمیں ہیپاٹائٹس بی اور سی ، اور ملیریا وغیرہ کے ٹیسٹ کرنا پڑتے ہیں۔ خواتین خون کی کمی میں مبتلا ہیں اور ان کا ہیموگلوبن ٹیسٹ کرنا پڑتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہاں ریسرچ کرنے والی این جی او ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے بنیادی تفتیشی آلات بھی فراہم کریں۔
اس دوران ڈسپنسری کے مددگار میں عمر نے کہا کہ علاقے میں ایک سو کے قریب معذور بچے موجود ہیں۔
ڈاکٹر عباس نے بتایا کہ اس کی وجہ آپس کی شادیاں ہیں کیونکہ لوگ برادری سے باہر شادیاں نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ خوراک اور غذائیت کی کمی ہے جس سے معذوریاں پیدا ہورہی ہیں۔ یہاں کے لوگوں میں سانس کے امراض، ڈائریا اور جلدی بیماریاں عام ہیں۔