بہادر نوجوان

اپ ڈیٹ 12 جنوری 2014
ہنگو کے نوجوان طالب علم اعتزاز حسن نے جان دے کر سیکڑوں زندگیوں کو خود کش بمبار سے بچالیا۔ فائل فوٹو۔۔۔
ہنگو کے نوجوان طالب علم اعتزاز حسن نے جان دے کر سیکڑوں زندگیوں کو خود کش بمبار سے بچالیا۔ فائل فوٹو۔۔۔

جب سے عسکریت پسندوں نے پاکستان پر جنگ مسلط کی ہے، تب سے تقریباً ہرروز ہی نئے المیے سامنے آرہے ہیں۔ اب تو ہم نے بھی خودکش دھماکوں اور دہشتگردی کی کارروائیوں کو پاکستانیوں کی تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرنا شروع کردیا ہے۔

اسی دوران پھر، ایک عام نوجوان شہری نے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں قتلِ عام کے سامنے ڈٹ کر جس بہادری کا مظاہرہ کیا وہ لائقِ تقلید مثال ہے۔ جس طرح کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف ملالہ نے مثال قائم کی، اسی طرح پیر کو نویں جماعت کے طالبعلم اعتزاز حسین نےجرائت و ہمت کی عظیم مثال قائم کرتے ہوئے جو قربانی دی، وہ مستحق ہے کہ اسے اُجاگر کیا جائے۔

اطلاعات کے مطابق، ہنگو کے علاقے ابراہیم زئی اسکول کا یہ طالب علم تاخیر سے اسکول پہنچا۔ اعتزاز ابھی اسکول کی عمارت سے باہر ہی تھا کہ اس نے ایک مشکوک شخص کو اسکول کی طرف بڑھتے دیکھا۔ اعتزاز نے اسے آواز دے کر روکا لیکن وہ رکنے کے بجائے اندر داخل ہونے لگا، جس پر یہ اسے پکڑنے کو دوڑٓا۔

نوجوان طالب علم کے خدشات درست تھے۔ جیسے ہی وہ اس مشتبہ شخص کے قریب پہنچا اور اس سے گھتم گتھا ہوا، خودکش بمبار نے خود کو اڑالیا اور نوجوان طالب علم بھی اس کے ساتھ ہی اپنی جان سے گیا۔

اطلاعات کے مطابق جس وقت یہ واقعہ ہوا تھا تب اسکول کے میدان میں اسمبلی ہورہی تھی اور وہاں سیکڑوں طالب علم اور اساتذہ موجود تھے۔ اگر یہ طالب علم خودکش بمبار کو نہ روکتا تو پھر اسکول کے اندر کتنے بڑے پیمانے پر جاں لیوا تباہی پھیلتی، اس کا تصور کرسکتے ہیں۔

یہاں اعتزاز کے خاندان سے متعلق معلومات کم ہی ہیں لیکن شاید وہ اس خیال سے مطمئن ہوں گے کہ ان کے بیٹے کی زندگی نے دوسرے سیکڑوں بچوں کو زندگی بخش دی ہے۔

خواہ وہ شہری ہوں یا باوردی اہلکار، ہمیں اعتزاز اور اس جیسے اُن تمام لوگوں کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے جنہوں نے عسکریت پسندی کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جانوں کو قربان کردیا۔

یہاں ایک نوجوان کی زندگی تو عسکریت پسندی کی بھینٹ چڑھی لیکن وہ جو اپنی مذہبی جنونیت کے دم پر لوگوں کی روحوں کو محکوم بنانا چاہتے ہیں، ان کے خلاف اس نوجوان کی قربانی مزاحمت کی علامت ہے کہ وہ ایسا کر نہ سکیں گے۔

ریاست کو چاہیے کہ وہ اس نوجوان کے خاندان سے اظہار تعزیت کرے اور انہیں اپنی ہر ممکن مدد کی پیشکش کرے۔ ساتھ ہی یہ بھی یکساں اہمیت کی حامل ہے کہ وہ جو صاحبانِ اقتدار ہیں، انہیں شدت پسندی کے خلاف ڈٹ جانے کے لیے اس نوجوان طالب علم کی ہمت اور قربانی سے ایک دو چیزیں سیکھ لینی چاہئیں۔

انگریزی میں پڑھیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں