سانول موڑ مہاراں

شائع January 18, 2014
مصدق سانول کی ذات کی اتنی بہت سی جہتیں تھیں مگر سچ پوچھیں تو وہ ایک خواب دیکھنے والا تھا۔
مصدق سانول کی ذات کی اتنی بہت سی جہتیں تھیں مگر سچ پوچھیں تو وہ ایک خواب دیکھنے والا تھا۔

لندن کی شام تھی۔ اوائل اگست کی خوشگوار پھوار گر رہی تھی۔ رسل سکوائر کے میٹرو سٹیشن پر ایک غریب الوطن ٹرین سے اترا ۔ اجنبیوں کی طرح ادھر ادھر دیکھتا پلیٹ فارم سے باہر آیا۔ فٹ پاتھ پر کھڑے مصدق سانول نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا اور کہا سالگرہ مبارک۔ آئیے گھر چلتے ہیں۔ میں نے آپ کے لیے اپنے ہاتھ سے دال بنائی ہے۔

مختصر مگر نفاست سے آراستہ گھر میں اکیلے قیام پذیر تھے۔ دیواروں پر مصوری کے کچھ خوبصورت نمونے آویزاں تھے۔ کتابوں کی الماری میں قدیم شناسائی جیسی ترتیب تھی۔ موسیقی کی آواز اس قدر مدھم تھی کہ ہوا کے جھونکوں کی طرح گاہے گاہے اپنا احساس دلاتی تھی۔ کھانا کھا چکے تو کسی قدر ہچکچاتے ہوئے بتایا ’’آج میری بھی سالگرہ ہے۔‘‘ حیرت ہوئی کہ مصدق نے میری سالگرہ کا دن کیسے معلوم کیا اور پھر یہ اشتراک دریافت کیا۔ مگر مصدق سانول ایسے ہی تھے۔ وہ انسانوں میں خوشیاں بانٹنے والا ایک خوش رنگ پرندہ تھا۔ ایک روز پرانی کتابوں کی دکان پر کھڑے تھے۔ کوئی ایسی پرلطف بات کی کہ میں نے بے اختیار ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کہ کہا سانول تم بھری بھیڑ کے بیچوں بیچ رکھا سرخ شراب کا گلاس ہو۔ شرما گئے۔ مصدق سانول اعلان کے آدمی نہیں تھے۔ ان کی ذات کا ذائقہ آہستہ آہستہ اپنا حسن کھولتا تھا۔

مصدق مصوری کرتا تھا تو کینوس پر خوشیوں کے رنگ اتارتا تھا۔ تھیٹر کے سٹیج پر نمودار ہوتا تو انسانی دکھوں کا کتھارسس کرتا تھا۔ ہارمونیم پر اس کی انگلیاں تتلیاں تراشتی تھیں۔ اس کی آواز کانوں میں رس گھولتی تھی۔ سانول بابا فرید کے دیس سے آیا تھا اور لاہور کی گلزار گلیوں میں اس نے شاہ حسین کو دریافت کیا۔ اس کے شعر میں سندھ اور راوی کے دکھوں کی لہریں صاف پہچانی جاتی تھیں۔ مجھے معلوم نہیں اس نے رقص کی باقاعدہ تعلیم پائی تھی یا نہیں لیکن اسے دیکھ کر ہمیشہ ایسا لگا کہ اس کی چال میں بھی نرت کے بھید بھاؤ ہیں۔

صحافت میں مصدق سانول نے اس کلاسیکی روایت کو اپنایا جہاں سماجی ذمہ داری کو ذاتی شہرت پر ترجیح دی جاتی تھی۔ اسے بریکنگ نیوز میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ مصدق تھا اور خبر کی تصدیق چاہتا تھا ۔ حیرت نہیں کہ صحافت میں اس نے بی بی سی اور پھر ڈان کا انتخاب کیا۔

دونوں ادارے صحافتی اخلاقیات کے اعلیٰ معیارکے لیے جانے جاتے ہیں۔ بی بی سی اردو سروس کی ویب سائٹ مصدق نے ڈیزائن کی تھی۔ یہ اردو میں آن لائن صحافت کے ابتدائی اور کامیاب ترین نمونوں میں شمار کی گئی۔ میں نے بی بی سی پر لکھنا شروع کیا تو مصدق سانول ذہنی طور پر اس ادارے سے کچھ غیر مطمئن ہو چکا تھا۔ دراصل اس کے کچھ نئے رفیق پیشہ ورانہ سیڑھیوں سے زیادہ شیفتگی رکھتے تھے۔ مصدق سمجھتا تھا کہ صحافت محض وسیلہ معاش نہیں، اس میں ایک فکری سمت موجود رہنی چاہیے۔ مصدق میں اوسط درجے کے صحافیوں والی رعونت نہیں تھی لیکن اسے اپنے ہنر اور صلاحیت پر اعتماد تھا۔ پھر اس نے ڈان ڈاٹ کام کی ذمہ داری سنبھالی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے اس ویب سائٹ کا نقشہ ہی بدل کے رکھ دیا۔ اردو ڈان کے لیے وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کے ایسے راندۂ درگاہ قلم کار لایا جنہوں نے اس ویب سائٹ کو متبادل رائے عامہ کا نشان بنا دیا۔ یہاں اس کی پیشہ ورانہ شخصیت کا ایک اور پہلو کھلا ۔ وہ ایک اچھا استاد تھا۔ یہ بھی صحافت کی ایک دیرینہ روایت ہے کہ تجربہ کار صحافی نئے آنے والوں کو صحافت کے رموز و نکات سکھاتا ہے۔ مصدق چاہتا تھا کہ آن لائن صحافت میں بھی ادارتی نگرانی کا ایسا معیار قائم کرنا چاہیے کہ خبر کا اعتبار قائم رہے۔

مصدق سانول کی ذات کی اتنی بہت سی جہتیں تھیں مگر سچ پوچھیں تو وہ ایک خواب دیکھنے والا تھا۔ ضیاالحق کے خلاف مزاحمت میں ایک پوری نسل کے سیاسی شعور نے پہچان پائی تھی۔ صر ف نیشنل کالج آف آرٹس ہی کو لے لیں تو یہاں سے اٹھنے والے صرف دو باشعور فن کاروں صابر نذر اور مصدق سانول نے پاکستان کو اتنا کچھ دیا کہ اگر آمریت بالفعل ایک برائی نہ ہوتی تو ایک اور ضیاالحق کی خواہش کی جا سکتی تھی۔ ہر نسل کی طرح 80 کی دہائی میں بھی سب کی کارکردگی ایک جیسی نہیں رہی۔ ہم میں سے کچھ نے خواب رہن رکھ دیا تو کچھ نے خواب بیچ دیا۔ مصدق سانول نے اپنا خواب جھوٹا نہیں پڑنے دیا۔ وہ زاویہ بدل بدل کے اس خواب کا سنگھار کرتا رہا۔ خواب کا روزگار سستا نہیں ہوتا۔ اس میں ہوتا ہے بہت جی کا زیاں۔۔۔ اس تپسیا نے مصدق سانول میں ایک صوفی کو جنم دیا۔ اپنے خواب سے محبت نے اس میں وسعت بھر دی تھی۔ وہ ایک سچا کبیر پنتھی تھا۔ گورو جی تیغ بہادر کے شبد بھی اسی جذب سے گاتا تھا جس وارفتگی سے سچل سرمست کا کلام سروں کی مالا میں پروتا تھا۔ وہ سیلانی تھا۔ میں سوچتا ہوں مصدق سانول میں حسن کی طلب کیسی گہری تھی کہ اسے مشرق و مغرب کی پہنائیوں کہیں قرار نہیں آتا تھا۔ کوہ الپس کی چوٹیاں اور ہماچل کی ترائیاں۔ صوفی کلام اور مغربی موسیقی۔ گیان اپنی قیمت تو مانگتا ہے ۔ کیا تعجب کہ اونچے سروں میں گانے والے کا سینہ بے وفائی کر گیا۔

مصدق سانول گورو جی تیغ بہادر کا کلام جی جان سے گاتا تھا۔ بول تھے ، ’’بانہیں جہناں دیاں پکڑیے، مت چھوڑیے‘‘۔ مگر مصدق تم تو اپنے دوستوں کا ہاتھ چھوڑ گئے اور ایسے کہ کوئی یہ بھی نہ کہہ سکے، ’’سانول موڑ مہاراں‘‘۔

وجاہت مسعود
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (4) بند ہیں

Tariq Abbasi Jan 18, 2014 07:09pm
Ultimate tragedy is the bitter end reality of life. Perhaps that's why life is so beautiful.
Dr.Salim Haidrani Jan 18, 2014 10:36pm
During the injured days of Zia period, Musadik was a popular young Urdu poet in Multan. We all in the University of Multan enjoyed his young but mature poetic dreams and lyrics. Then came 1984' I left Multan and Pakistan. We never met again - what a sad news that I have lost a great artist from Multan and Pakistan.
sajid khan Jan 20, 2014 11:53am
Dil na aaheen mar Ni walna dildar
Read All Comments

کارٹون

کارٹون : 24 جون 2025
کارٹون : 23 جون 2025