پولیس کیلیے چیلنج

28 جنوری 2014
کراچی میں پولیس اہلکاروں کے قتل، امن و امان کی کوششوں میں یہ ناقابلِ قبول ہے۔، فائل فوٹو۔۔۔۔
کراچی میں پولیس اہلکاروں کے قتل، امن و امان کی کوششوں میں یہ ناقابلِ قبول ہے۔، فائل فوٹو۔۔۔۔

نیا سال صوبائی دارالحکومت کی پولیس کے واسطے نہایت سنگین ثابت ہورہا ہے۔ کراچی میں اتوار کو مزید سات ہلاکتوں کے ساتھ، رواں ماہ اب تک ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کی تعداد تئیس ہوچکی ہے۔ یہ برہنہ اعداد و شمار حالات کی سنگینی کے اظہار کے واسطے اگر کافی نہیں تو وسیع نوعیت کے یہ خطرات، حالات سے نمٹنے کو مزید پیچیدہ بنارہے ہیں۔

کم وسائل کی حامل کراچی پولیس کو نچلے درجے کے مجرموں کے خلاف جاری آپریشن کے دوران بیک وقت متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے، جس میں طالبان سے لے کر پرانی دشمنیوں کا حساب چُکتا کرنے تک، سب ہی کے حوصلے بُلند ہیں۔ جو بات بالکل واضح نہیں وہ یہ کہ درپیش خطرات سے پولیس کو محفوظ کرنے کی خاطر کون کون سے قلیل المدتی اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔

کراچی کا ایک بڑا حصہ بدامنی اور افراتفری سے دوچار ہے، خطرات بڑھتے چلے جارہے ہیں اور ایسے میں ہر لحاظ سے پولیس خطرات کی زد پر ہے۔ عالمی تجربات تجویزکرتے ہیں کہ عوام کے تحفظ کے دوران پولیس کو خطرات سے محفوظ رکھنے کی خاطر دو اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔

پہلا ہے خفیہ اطلاعات یا انٹیلی جنس کا پہلو۔ خواہ یہ سیاسی ہوں، شرپسند یا خالص جرائم پیشہ، پولیس والوں یا عام شہریوں کے قتل سے دباؤ بڑھانے والے یہ ملزمان بعض بڑے گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایسے گروہوں کا پتا چلا کر ان کی سرگرمیوں پر نہایت قریب سے نظریں رکھ کر، شناخت کر کے، ان کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے لیکن اکثر ایسا نہیں ہوتا۔

جہاں تک کراچی کی صورتِ حال کا تعلق ہے تو یہاں خطرات جانے پہچانے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ ان کے خلاف یہ خود کار طریقے سے کام کرنے لگیں۔

سوال کا دوسرا حصہ ہے: پولیس اہلکاروں کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ دنیا کی کوئی بھی پولیس حوصلے اور ہمت کے ساتھ ایسے ماحول میں اپنا کام نہیں کرسکتی کہ جہاں قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے تک لانے کے بجائے خود ان کے ارکان کو سزائیں مل رہی ہوں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے فعال عدالتی نظام اور سیاسی آمادگی کے پرانے مسئلے کا حل ضروری ہے۔ کیا ہم واقعی حقیقت پسندی سے سوچ رہے ہیں کہ اس کے کوئی امکانات ہیں؟ بہرحال، چاہے انہیں پولیس کے دباؤ پر ایسا کرنا پڑے یا امکانی طور پر عوامی دباؤ کے باعث، صوبائی اور وفاقی حکومت کو ایسا کرنا پڑے گا۔

گذشتہ برس جب کراچی میں موجودہ آپریشن کا فیصلہ کیا گیا تب وزیرِاعظم اور سندھ حکومت نے، اس میں پولیس کو لانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن ایک بار پھر نئے سرے سے پولیس کے واسطے ان کی حمایت کے اظہار کی ضرورت ہے۔

وسیع و عریض شہر میں امن و استحکام کی کوششوں میں پولیس کو لاحق خطرات کا پوچھنا ایک بات لیکن اس کے لیے توقع کرنا کہ وہ اپنے ساتھیوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے، یہ سراسر دوسری اورناقابلِ قبول بات ہے۔

انگریزی میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں