مذاکرات ناکام ہوئے تو دوسرے آپشن استعمال کریں گے: وزیرِ مملکت
اسلام آباد: کل بروز منگل گیارہ فروری کو حکومت نے سینیٹ کو مطلع کیا کہ دیگر آپشن موجود ہیں، لیکن انہیں صرف اسی صورت میں استعمال کیا جائے گا، جب کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں۔
جب ملک میں امن و امان کی صورتحال پر جاری بحث سمیٹی جاری تھی تو وزیرِ مملکت برائے امورِ داخلہ بلیغ الرحمان نے کہا کہ ”حکومت اپنی کوششوں میں مخلص ہے۔ اس نے کسی طرح کی کمزوری ظاہر نہیں کی ہے۔ مذاکرات پہلا آپشن ہے اور حکومت دیگر آپشن کی جانب صرف اسی صورت میں آگے بڑھے گی، جب یہ آپشن مکمل طور پر ختم ہوجائے گا۔“
حزبِ اختلاف کے اراکین کی جانب سے کی گئی تقاریر کے جواب میں وزیرِ مملکت نے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ حکومت کی صفوں میں کوئی بوکھلاہٹ نہیں ہے، اور عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات صرف آئین کے دائرہ کار میں ہی کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ”حکومت کنفیوز نہیں ہے۔ اس کا واضح مؤقف ہے کہ یہ مذاکرات آئین کے دائرے کے اندر منعقد کیے جائیں گے۔“ انہوں نے مزید کیا کہ یہ ان کا عزم ہے جیسا کہ انہوں نے آئین کے تحت حلف اُٹھایا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ میڈیا میں جو بحث جاری ہے وہ لوگوں کی ذاتی رائے ہے۔
بلیغ الرحمان نے دعویٰ کیا کہ سندھ اور بلوچستان میں سیکیورٹی کی صورتحال بہتر ہورہی ہے اور سندھ کے وزیراعلٰی نے بذات خود تسلیم کیا ہے کہ صوبے میں جرائم کی شرح میں چالیس فیصد تک کمی ہوئی ہے۔
اس سے قبل بحث میں حصہ لیتے ہوئے پیپلزپارٹی کے چوہدری اعتزاز احسن نے طالبان کے ساتھ حکومت کی مقرر کردہ مذاکراتی کمیٹی میں اراکین پارلیمنٹ، اقلیتوں، خواتین اور شیعہ برادری کی نمائندگی کا مطالبہ کیا۔
مذاکرات کی ناکامی کی پیشن گوئی کرتے ہوئے حزب اختلاف کے رہنما نے کہا کہ ”طالبان کو شکست سے دوچار ہونے میں چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔“ انہوں نے دعویٰ کیا کہ صرف تیس فیصد طالبان قبائلی علاقوں میں رہ گئے ہیں، ستر فیصد پہلے ہی پورے ملک میں پھیل گئے تھے۔
انہوں نے ٹی ٹی پی کے مبینہ مطالبات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت چار ہزار سے زیادہ طالبان کو رہا کردیتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ انہیں قوت فراہم کررہی ہے۔ ”اگر آپ اپنے فوجیوں کو قبائلی علاقوں سے نکال لیتے ہیں تو اس کے معنی ہوں گے کہ طالبان کو ایک علاقہ دے دیا جائے گا اور ان کے نقصانات کے معاوضے کی ادائیگی کی صورت میں آپ انہیں بجٹ فراہم کریں گے۔“
اعتزاز احسن نے کہا کہ حکومت کنفیوز تھی اور اس وقت طالبان، طالبان کے ساتھ مذاکرات کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بندوق کی طاقت کے ذریعے ملکی آئین کو ایک فرقے کی طرف سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
حکمران جماعت مسلم لیگ نون کے پارلیمانی لیڈر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ طالبان نے پاکستان اور اس کے آئین کو تسلیم کیا ہے۔ ”حکومت کے ساتھ ان کے مذاکرات کا واضح مطلب یہ ہے کہ انہوں نے ملک اور اس کے آئین کو تسلیم کرلیا ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ ”اگر وہ پاکستان کو تسلیم نہیں کرتے، تو وہ کیوں اپنا نام تحریک طالبان پاکستان اختیار کرتے۔“
انہوں نے کہا کہ ”ہم سب مسلمان ہیں۔ ہم شریعت کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ کوئی گروپ یکطرفہ طور پر شریعت کے نفاذ اور جہاد شروع کرنے کا اعلان نہیں کرسکتا۔“
مشاہد اللہ خان نے کہا کہ اگر کوئی گروہ نظام کی تبدیلی چاہتا ہے، تو اسے چاہیٔے کہ وہ الیکشن میں حصہ لے اور پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرے۔
اس سے پہلے پیپلزپارٹی کی صغریٰ امام کی جانب سے امریکا اور افغانستان کی جانب سے امن مذاکرات کے لیے سہولت دینے سے متعلق ایک توجہ دلاؤ نوٹس کے جواب میں قائدِ ایوان راجہ ظفرالحق نے کہا کہ پاکستان کو کسی بھی بیرونی ریاست کی مدد کی ضرورت نہیں، اور وہ اپنے اندرونی معاملات کو بہتر طریقے سے نمٹ سکتا ہے۔
ایم کیو ایم کی نسرین جلیل نے الزام عائد کیا کہ کراچی میں جاری آپریشن کے نام پر ان کی پارٹی کے کارکنوں کو انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ اب تک ایم کیو ایم کے دس کارکنوں کو پولیس کی حراست میں ہلاک کیا جاچکا ہے، جبکہ اٹھارہ سو کارکنوں کو پولیس نے رشوت لے کر رہا کردیا ہے۔ انہوں نے پولیس پر الزام لگایا کہ وہ کراچی میں روزانہ بائیس کروڑ روپے کی رشوت وصول کرتی ہے۔
ایم کیو ایم کی سینیٹر نے آپریشن کی نگرانی کے لیے ایک کمیٹی کی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم ایک پولیس اسٹیٹ میں نہیں رہتے ہیں۔“
اس اجلاس کے آغاز میں ایم کیو ایم کے علاوہ حزبِ اختلاف کی تمام پارٹیوں نے ملک میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کے حکومتی فیصلے کے خلاف ایک علامتی واک آؤٹ کیا۔