مردم شماری پھر ملتوی

27 فروری 2014
مردم شماری کے بغیر حکومت کے لئے یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ کتنے اسکولوں کی ضرورت ہے، کتنے مکانوں کی ضرورت ہے فائل فوٹو۔۔۔
مردم شماری کے بغیر حکومت کے لئے یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ کتنے اسکولوں کی ضرورت ہے، کتنے مکانوں کی ضرورت ہے فائل فوٹو۔۔۔

گزشتہ ہفتے، حکومت نے چھٹی مردم شماری کرانے کا منصوبہ ایک بار پھر ملتوی کردیا جس کا مقررہ وقت گزرے ہوئے بھی ایک عرصہ ہوچکا ہے- یہ فیصلہ اس بے چینی اور متوقع سیاسی رد عمل کے پیش نظر کیا گیا ہے جو مردم شماری کے اعداد و شمار کے اعلان کے نتیجے میں سامنے آ سکتا ہے-

چونکہ تازہ اعداد وشمار وسائل کی تقسیم، انتخابی حلقوں کی از سر نو تشکیل اورصوبائی اور قومی سطحوں پر نشستوں کی تقسیم پر اثرانداز ہوسکتے ہیں، حکومت سمجھتی ہے کہ تمام متعلقہ ادارے اور گروپس شور و غوغا بلند کرینگے خواہ نتائج کچھ ہی کیوں نہ ہوں-

دوسرا طریقہ یہ تھا کہ فوج کی نگرانی میں مردم شماری کروائی جائے تاکہ بےچینی نہ ہو، لیکن اسے بھی مسترد کردیا گیا جسکی بڑی وجہ یہ تھی کہ پارٹیوں کو یہ خدشہ نہ ہوکہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک ہوگا- اگر فوج کی نگرانی متنازعہ نہ ہو تب بھی یہ چیز مناسب نہ تھی کیونکہ پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ، تمام مسائل کی وجہ یہ ہے کہ ملک جمہوریت کو مستحکم کرنے کے عمل سے گذر رہا ہے-

اس کے علاوہ بھی فوج کو چاہیئے کہ وہ آنے والے مہینوں میں اپنی توجہ اندرون ملک دہشت گردی کے حملوں کا مقابلہ کرنے کی طرف مرکوز رکھے، بجائے اس کے کہ اپنی توجہ اس منطقی چیلنج کی طرف کردے جو مردم شماری کے نتیجے میں پیش آسکتا ہے-

مردم شماری کا چیلنج کیچ- 22 کے وجودی مسئلہ سے مشابہت رکھتا ہے جس کا ملک کے وجود کوسامنا ہے: ریاست، ملک کو لاحق دہشت گردی کے خطرہ کو جاری رہنے کی اجازت نہیں دے سکتی، لیکن تشدد پسند انتہا پسندوں کے خلاف اقدامات کرنا، جن کا دعویٰ ہے کہ وہ اسلام اور شریعت کی جنگ لڑ رہے ہیں، ریاست کے سامنے اس خطرہ کوپیش کرتا ہے کہ اس کی بنیاد اور وجود کے بارے میں سوالات اٹھائےجائینگے-

اسی طرح، پاکستان ہندوستان کے ساتھ تجارت کھولنے میں پس و پیش کر رہا ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ معاشی لحاظ سے طاقتور یہ ملک اسکی چھوٹی معیشت پر غالب آ جائیگا، لیکن جب تک ہندوستان سے اسکے تجارتی تعلقات قائم نہ ہوں اسکی معیشت بھرپور طریقے سے ترقی نہیں کرسکتی- پاکستان مردم شماری سے اس لئے گریز کر رہا ہے کیونکہ اسے ان سیاسی جماعتوں کی جانب سے رد عمل کا ڈر ہے جنھیں شکایتیں ہیں، لیکن جب تک مردم شماری مکمل نہ ہو ریاست ان اسٹرکچرل مسائل کو حل نہیں کرسکتی جن کی وجہ سے یہ شکایتیں پیدا ہوئی ہیں-

حکومت کو یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے کوعدم تحفظ اور احتیاط کے لبادے میں لپیٹ کر مردم شماری کو غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی نہ کرے کیونکہ یہ اس کی کمزوری کی علامت ہو گا- اس کے رد عمل سے ریاست کا خوف نہ صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس قابل نہیں ہے کہ امن وامان کی ضمانت دے سکے بلکہ اس بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اسے عوام پر اعتماد نہیں ہے-

قومی مردم شماری کے نتیجے میں بیچینی پیدا ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پاکستانی اس بات کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ آبادی کی ہیئت میں تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت کم لوگوں کو اس عمل کی شفافیت اور سرکاری انتطامیہ کی کارکردگی پر بھروسہ ہے-

اعداد و شمار سے آبادی میں تبدیلی، نقل مکانی اورآمدنیوں کے بارے میں جو کچھ بھی سامنے آئے گا ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ بدترین بات یہ ہوسکتی ہے کہ عوام یہ سمجھیں کہ ان کے ذریعے چند خاص سیاسی پارٹیوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے یا پھر یہ کہ نااہلیت کی بناء پر وہ اس عمل میں ناکام رہی ہے-

مردم شماری کو التوا میں رکھنے کی جو وجہ حکومت کی جانب سے بیان کی جاتی ہے اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری سیاست، شکایتوں کی سیاست ہے نہ کہ مسائل اور خدمات عامہ پر مبنی سیاست- سیاسی جماعتیں نسلی امتیاز کا شکوہ کرتی رہتی ہیں،انھیں اس بات کا شکوہ ہے کہ ان کےانتخابی حلقوں کو یا تو مبالغہ آمیزی کے ساتھ بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے یا پھر ان کوگھٹا کر بتایا جاتا ہے، یہ اور بات ہے کہ اس کی وجہ سے نسلی کشمکش اور تنازعات پیدا ہوتے ہیں-

خواہ یہ کوئٹہ کے بلوچ یا پختوں ہوں، کراچی میں ایک دوسرے سے برسرے پیکار نسلی- لسانی گروپس، پنجاب کے سرائیکی بولنے والے یا کے پی کے ہزارہ، ہر گروپ نے اپنی اپنی تعداد کے بارے میں من گھڑت اعدادو شمار بنا رکھے ہیں اور اپنی اکثریت کے بارے میں سیاسی دعوے کرتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ نسلی امتیاز برتا جارہا ہے-

اگر صحیح اعداد و شمار اکٹھا کئے جائیں تو ان تمام دعووں کا پول کھل جائے گا، جسکے نتیجے میں دوبارہ انتخابی حلقہ بندیاں ہونگی، وسائل کی تقسیم ہوگی، بلکہ شاید صوبوں کی حد بندی بھی دوبارہ کرنی پڑے-

افسوس اس بات کا ہے کہ اگر آبادی کی ساخت کے صحیح اعداد و شمار کی بنیاد پر فیصلہ نہ کیا گیا تو اس سے سیاسی سرپرستی اور سودے بازی کے کلچر کو بڑھاوا ملے گا- شفاف طریقے اپنانے کے بجائے سیاسی پارٹیوں کی قیادت، حلقہ بندیوں اور وسائل کے تعلق سے پس پردہ معاہدوں اور دباؤ کی حکمت کے ذریعے فیصلے کرے گی- اسکے نتیجے میں طاقت چند لوگوں کے ہاتھ میں مرکوز ہوجائیگی اور افراد کے بجائے اداروں کو مضوط بنانے میں تاخیر ہوگی، جس کی بہرحال شدید ضرورت ہے-

شفاف اور صحیح مردم شماری کی مخالفت سے اس بات کا خدشہ بھی ہے کہ سیاستداں اپنے حلقوں سے دور ہو جائینگے- مثلاً، مردم شاری نہ کروانے میں مسلسل ناکامی سے پاکستان کو یہ نقصان پہنچ رہا ہے کہ ہم اس بات کو تسلیم نہیں کر پا رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں شہر کتنی تیزی سے بڑھ رہے ہیں- اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاستدان ابھی تک فریب کا شکار ہیں اور انکی تقریروں اور سرگرمیوں کا رخ دیہاتوں کی طرف ہے-

اس تناطر میں، مختصر عرصے کے لئے تو بیچینی سے بچا جاسکتا ہے کیونکہ مردم شماری کے نتیجے میں رائے دہندہ، اعداد و شمار کے بارے میں سوال نہیں اٹھا سکتے اور نہ ہی وسائل کی تقسیم اور نشستوں کی تقسیم کے بارے میں سوال کرسکتے ہیں - لیکن، طویل مدت تک، اگر ناکافی سہولتیں فراہم کی جائیں، نظم و نسق ناکارہ ہو اور بدعنوانیوں کا دور دورہ ہو تو عوام کی امیدوں کو دھکا پہنچے گا اور بیچینی بڑھے گی-

اس امر کے پیش نظر کہ طویل عرصے تک شکایتوں کا جاری رہنا تشویش کا باعث بن سکتا ہے ہمارے سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ مردم شماری کی فضا پیدا کریں، خواہ اس سے مختصر سی مدت کے لئے بیچینی کیوں نہ پیدا ہو- کوئی بھی حکومت مضبوط پالیسیوں کے بغیر اور عوام کو سہولتیں پہنچائے بغیر ان کی خدمت کرنے کا دعویٰ نہیں کرسکتی-

مردم شماری کے بغیر حکومت کے لئے یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ کتنے اسکولوں کی ضرورت ہے، کتنے مکانوں کی ضرورت ہے جو لوگوں کی پہنچ میں ہوں، پبلک ٹرانسپورٹ ،صحت عامہ کی سہولتیں اور کتنی ملازمتیں درکار ہیں- ان سب کے بغیر عوام کو طویل عرصے تک مطمئن نہیں کیا جاسکتا-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: سیدہ صالحہ

تبصرے (0) بند ہیں