یہ اس بلاگ کا دوسرا حصّہ ہے، پہلے حصّے کے لئے کلک کریں

لیاری ندی کے کنارے لیار کے درخت، جھاڑ جھنکار وسیع اراضی پر پھیلے ہوئے تھے۔ علاقے کا کوئی نام نہیں تھا، لیار کی فراوانی سے علاقے کو لیاری کے نام سے شہرت حاصل ہوئی۔

جابجا قبرستان، شہر کی مختلف کمیونٹیوں نے چار دیواریاں قائم کرکے اپنے چھوٹے چھوٹے قبرستان بھی بنا رکھے تھے جو آج بھی ویسے ہی قائم اور قبروں سے آباد ہیں۔

"انگریزوں کے زمانے میں یہ علاقہ شہر کا حصہ شمار نہیں ہوتا تھا۔ یہ شہر کے اندر ایک کالا پانی تھا۔ جہاں نیپئر پولیس اسٹیشن ہے وہاں ایک بورڈ لگا ہوتا تھا جس پر واضح لکھا ہوتا تھا: نوگو ایریا: یہ سرکاری حکم کا درجہ رکھتا تھا خاص طور پر گوروں کیلئے۔"

بزرگ سال بلوچ دانشور رحیم بخش آزاد نے ڈان ڈاٹ کام سے لیاری پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا؛

"چند ماہ قبل رات گئے، میں، میوہ شاہ روڈ پر کسی محفل میں بیٹھا تھا" میرے ایک کرائم رپورٹر دوست نے بتایا، "سندھ حکومت کے ایک بسیار گو وزیر بھی شریک مجلس تھے۔ سندھ کی سیاست میں سرگرم کسی سینیٹر پر سب ہنس رہے تھے جن کا ماضی میں ٹرانسپورٹ کی صنعت سے تعلق رہا تھا۔" وہ اگر ہالی ووڈ میں ہوتے تو پتہ ہے اس کی قسمت یہاں سے زیادہ چمکتی" کسی نے زور کا قہقہہ لگاتے ہوئے تبصرہ کیا۔" وہ ان فلموں کا ہیرو ہوتے جن میں ہٹلر کو دکھایا گیا ہے، پتہ ہے وہ بالکل ہٹلر لگتے ہیں، کچھ بھی فرق نہیں۔"

"غالباً بلوچ اٹھارویں صدی کی دوسری دہائی یا اس سے قبل، مغربی بلوچستان سے کراچی آئے۔"

بلوچی زبان کے نقاد و شاعر اصغر علی آزگ نے ڈان ڈات کام سے بات چیت کرتے ہوئے کہا۔ انہوں نے مزید کہا؛

"کراچی بندرگاہ پر روزگار کے ذرائع نے انہیں اس شہر کی جانب کھینچا۔ کلری، بغدادی، شاہ بیگ لائن، ہنگورو آباد کے رہنے والے لوگوں کا روزگار شروع سے کراچی پورٹ کیساتھ وابستہ رہا۔ میں نے اپنے بچپن میں کراچی کو چھوٹا سا غیر آباد شہر پایا۔ لیاری سے اس پار شیر شاہ کی طرف شہر ختم ہوتا تھا۔"

یہ 60 کا عشرہ ہے۔ پاکستان کی عمر محض 13 سال ہے۔ جمہوریت کی بساط الٹ دی گئی ہے اور پہلی فوجی حکومت قائم کردی گئی ہے۔ فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان عمرہ ادا کرنے سعودی عرب جارہے ہیں۔ ان کی جیب میں ایک پرزہ ہے۔ جس میں لکھا مفہوم یوں ہے، "یا اللہ مجھے بغیر حساب کتاب کے ہی بخش دے!" ( شہاب نامہ، قدرت اللہ شہاب ص 732)

ان کے کردہ نا کردہ گناہوں کی لمبی فہرست میں لیاری کو غالباً انہوں نے شامل نہیں کیا ہوگا۔ حالات بتدریج اپنے وقت پر پیش آتے ہیں۔ جب فہرست 60 کے عشرے سے آگے بڑھتی ہے تو لیاری کا نام بھی شامل ہوا ہوگا۔ وہ فوجی افسر اعلٰی تھے۔ رضا شاہ پہلوی کے والد شاہ محمد رضا کی مانند۔

ایران فارس کے قازق بریگیڈ سے بادشاہ بننے والے محمد رضا کا جبر ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ سرباز اور سراوان کے درمیانی علاقہ افشان کے کچھ نوجوان اپنا کچھ مستقبل نہیں دیکھتے تھے، ان کے اردگرد زندگی بے معنویت کا شکار تھی۔ یہ چار پانچ بھائی تھے۔

نوجوان، تنومند، اپنے آپ پر بھروسہ کرنے والے۔ وہاں سے چلے، مشرقی بلوچستان سے گزرتے ہوئے لیاری میں مستقل پڑاؤ ڈالا۔ وہ اگر روزگار کیلئے کچھ کرنا چاہتے تھے تو ان کو اپنا رخ چارلس نیپئر کے نام سے منسوب سڑک کی جانب ہی کرنا تھا شہر ابھی چھوٹا سا ہی تھا اور لیاری کی مغربی سمت ابھی ویرانگی تھی۔

"کراچی کا پھیلاؤ ان دنوں زیادہ نہیں ہوا تھا۔ جیل کے اردگرد جنگل میں میں نے تیتروں کا شکار کیا ہے۔ ٹریڈنگ اسٹیٹ کے علاقے میں بھیڑیوں سے ملاقات ہوتی جو منگھوپیر کی سمت سے شہر کی سیر کو آتے۔ لیاری کے کچھ حصوں میں کھڑے پانی کے تالاب تھے جہاں بطخوں کا شکار ہوتا تھا۔ پی ای سی ایچ ایس کے جنگل تو باقاعدہ شکارگاہ تھے۔" ( پیر علی محمد راشدی، ص 112، ایضاً)

افشان سے آئے ان بھائیوں کی دہشت کا سایہ شہر پر بہت جلد پھیلنے والا تھا۔ ایوب خان فوجی افسر تھے۔ طاقت پر ان کا یقین کسی بھی شے سے زیادہ تھا۔ یہ بات اس زمانے کی ہے جب نیپئر روڈ کے کمار سینما سے لے کر نگار سینما تک کے علاقے کی شامیں شہر کے رؤساء رنگین بنایا کرتے تھے۔ علاقے کے کسی بڑے پنجابی دادا گیر کو زیر کرکے، یہاں ان بھائیوں کی دھاک بیٹھ چکی تھی جو برف کا کروبار کرتے تھے۔

برف: رؤساء کے جام میں مل کر شراب کی تلخی کو قدرے کم کردیتی تھی۔ دن بھر کی الجھنوں سے تھکے ذہن سکون پاتے تھے۔ رقاصاؤں کی پتلی کمر کے ٹھمکے اور لہریں، گہری آنکھوں کی مسکراہٹیں ان کو شاد کرتی تھیں، لیکن یہ 1965 کا سال تھا۔ برف ان کے دماغ کو سرور کم پہنچا رہی تھی۔ سیاسی ہلچل،عوام کی جانب سے ایوب خان کی مخالفت کے تند اثرات نے ان کے دماغوں پر پریشانیوں کی گرہیں ڈالی ہوئی تھیں۔

ان رؤساء میں فوجی آمر ایوب خان کے فرزند گوہر ایوب کے دوست بھی شامل تھے۔ شاموں کو نیپئر روڈ پر رنگین کرنے والے رؤساء جانتے تھے، فرزند اول صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کرنے پر ان لوگوں کو سبق سکھانا چاہتے ہیں جو شہر کی سینٹرل جیل کے ارد گرد کی آبادیوں میں رہتے ہیں۔

تشدد کے اپنے قانون قاعدے ہوتے ہیں۔آپ زور زبردستی اور طاقت پر یقین رکھنے والے کو کسی کیخلاف تشدد پر مائل کرتے ہیں، درحقیقت آپ ان کو تشدد کو ہتھیار بنانے کی سند جاری کرتے ہیں۔

"ہم نے ایوبی آمریت میں غنڈہ گردی کو باقاعدہ ادارہ بنتے دیکھا، جس کے بعد یہ ہمارے کلچر کا حصہ بن گئی۔" ایک بزرگ ترقی پسند کارکن نے ڈان ڈاٹ کام سے بات چیت کرتے ہوئے کہا۔

برف کا کاروبار اب منافع بخش نہیں رہا۔ سیاسی مخالفتوں کو دہشت سے دبانے کا نیا دھندہ شروع ہوچکا تھا۔ لیاری میں بلوچ قوم پرستوں کے جلسے سبوتاژ کئے گئے۔ ترقی پسند طلباء تنظیموں کی سیاسی مخالفت غنڈہ گردی سے دبا دی گئی۔

...جاری ہے

تبصرے (2) بند ہیں

An Observer Mar 15, 2014 04:09am
A well written article that beautifully captures the history of Lyari and evokes a certain nostalgia. It carefully interweaves the history with hints to how Lyari got to where it is today.
An Observer Mar 15, 2014 04:11am
It's interesting that the roots of current violence in Lyari can be traced back to Ayub Khan. God knows how many more leaders will use this city and our country to quench their lust for power and money.