مودی میڈیا سے کیوں گھبراتے ہیں؟

24 مارچ 2014
مودی براہ راست سوالات کا سامنا کرنے کے بجائے تقاریر اور پہلے سے طے سوالات کا جواب دینے کو کیوں ترجیح دیتے ہیں؟۔ —. فائل فوٹو اے پی
مودی براہ راست سوالات کا سامنا کرنے کے بجائے تقاریر اور پہلے سے طے سوالات کا جواب دینے کو کیوں ترجیح دیتے ہیں؟۔ —. فائل فوٹو اے پی

ہندوستان میں 2009ء کے گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے دوران بی جے پی کی قیادت میں انتخابی اتحاد این ڈی اے نے حکمران اتحاد یو پی اے کے سامنے ایک دلچسپ چیلنج رکھا تھا۔

چیلنج یہ تھا کہ جس طرح امریکہ میں صدارتی انتخابات کے دوران صدر کے عہدے کے امیدوار ٹی وی پر آکر براہِ راست مباحثوں میں حصہ لیتے ہیں، اسی طرح منموہن سنگھ بھی بحث کے میدان میں اتریں۔

یو پی اے نے یہ چیلنج مسترد کر دیا تھا۔

اس کے بعد این ڈی اے نے تقریباً تمام انتخابی جلسوں میں یو پی اے کے انکار کو منموہن سنگھ کی ایک کمزوری کے طور پر پیش کیا تھا۔ وزیر اعظم کے عہدے کے دعویداروں کے درمیان کھلے مباحثوں کے معاملے کو اٹھانے والی جماعت میں گجرات کے وزیر اعلٰی نریندر مودی بھی اس وقت خوب زور و شور سے سرگرم تھے۔

اس دوران مودی نے نیوز چینلز کو جتنے بھی انٹرویو دیے ان میں زیادہ تر مواقعوں پر انہوں نے براہ راست مباحثوں کی طرفداری تھی۔

پانچ سال بعد آج پھر ہندوستان میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں،اور این ڈی اے کی قیادت اس بار خود نریندر مودی کررہے ہیں، لیکن پانچ سال پہلے تک وزیر اعظم کے عہدے کے دعویداروں کے درمیان براہِ راست مباحثے کی حمایت کرنے والے مودی اس مرتبہ اپنی باری آنے پر اس تجویز سے مکمل طور پر منحرف نظر آرہے ہیں۔

وزیراعظم کے امیدوار کا اعلان ہونے کے بعد سے ہندوستان بھر میں جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے مودی یک طرفہ مکالموں کی ادائیگی سے دعوے اور وعدوں کی برسات کرنے میں مصروف ہیں، لیکن وزیر اعظم کے عہدے کے امیدواروں کے درمیان براہ راست مباحثے کے سوال کے سامنے ان کا اعتماد بُری طرح کمزور پڑتا دکھائی دیتا ہے۔

بلکہ براہ راست بحث تو دور کی بات ہے، وہ نیوز چینلز کے انٹرویوز اور ایسے ٹاک شوز تک میں حصہ لینے سے بھاگ رہے ہیں جن میں عام لوگوں کو شامل کیا جا تا ہے۔

گزشتہ دنوں ایک ایسے ہی پروگرام میں انٹرویو دینے کی حامی بھرنے کے باوجود عین موقع پر وہ اس سے دامن بچا گئے۔ یہ انٹرویو سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ فیس بک اور یوٹیوب چینل نیوز لانڈری کے پروگرام ’کینڈیڈیٹس2014ء‘ کے لیے کیا جانا تھا۔

اس پروگرام میں شرکت کے لیے مودی نے پہلے حامی بھرلی تھی۔ اس بات کی تصدیق خود ’کینڈیڈیٹس‘ کی اینکر مدھو تریہن نے پروگرام کے ابتدائی اقساط میں کر دی تھی۔ اروند کیجریوال کے ساتھ کیے گئے اس پروگرام کے آغاز میں ہی مدھو نے کہا کہ ’’نریندر مودی نے پہلے حامی بھرنے کے بعد کسی وجہ سے شو میں آنے سے انکار کر دیا۔‘‘

پروگرام کے دوران مدھوتریہن نے مودی کو دوبارہ پروگرام میں شرکت کے لیے دوبارہ دعوت بھی دے دی۔ اس سے پہلے ان کے چینل نیوز لانڈری نے بھی پریس ریلیز کے ذریعہ نریندر مودی کی عدم شرکت کی اطلاع دے دی تھی۔

پریس ریلیز کے مطابق نیوز لانڈری نے پہلے انٹرویو کے لیے نریندر مودی کو مہینے بھر پہلے ہی رضامند کر لیا تھا۔

پروگرام کے پرومو بھی چلائے جا رہے تھے اور ہزاروں سوال بھی آ چکے تھے۔ لیکن پروگرام سے ٹھیک دو دن پہلے مودی کی طرف سے کچھ شرائط رکھ دی گئیں۔ ان شرائط سے نیوز لانڈری کے انکار کے بعد مودی نے انٹرویو منسوخ کر دیا۔

اس سلسلہ کے درمیان ’کینڈیڈیٹس‘ کے عنوان سے یہ پروگرام مسلسل جاری ہے اور اس میں ممتا بنرجی سے لے کر اکھلیش یادو تک عوام سے براہ راست بات چیت کر چکے ہیں۔ ان کے علاوہ دوسری جماعتوں کے لیڈر بھی آنے والے دنوں میں اس فورم پر آکر عوام کے سوالوں سے براہ راست مخاطب ہوں گے۔

تو آخر انتخابی گرماگرمی کے دوران نریندر مودی اس شو میں شرکت سے کیوں دامن بچا گئے ؟ ان کا ٹی وی انٹرویو میں شرکت سے كترانا اس لیے بھی چونكاتا ہے کہ ستمبر 2013 میں بی جے پی کی جانب سے وزیراعظم کے عہدے کے لیے امیدوار نامزد کیے جانے کے بعد سے مودی نے ایک بھی ٹی وی انٹرویو نہیں دیا ہے، جبکہ اس روز سے لے کر اب تک وہ ملک بھر میں سیکڑوں جلسوں سے خطاب کر چکے ہیں جن میں وہ یو پی اے کو تو کوس ہی رہے ہیں، ساتھ ہی خود کو وزیر اعظم کے عہدے کا سب سے بہترین امیدوار بھی قرار دے رہے ہیں۔

ایسے میں یہ جاننا بے حد ضروری ہو جاتا ہے کہ خود کو وزیراعظم کے عہدے کے لیے سب سے مفید امیدوار قرار دینے والے یہ سیاسی کھلاڑی میڈیا کے اکھاڑے میں آ کر عوام کے براہ راست سوالات سے کیوں بچ رہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق مودی کے میڈیا کے ساتھ کا پچھلا ٹریک ریکارڈ دیکھا جائے تو ان سوالات کا جواب آسانی سے مل جاتا ہے۔ اس بات کی گہرائی میں جانے پر معلوم ہوتا ہے کہ میڈیا سے بات کرنے کے لیے پہلے حامی بھرنے اور پھر انکار کردینا نریندر مودی اک مزاج رہا ہے۔

گزشتہ کچھ سالوں کے دوران میڈیا کے ساتھ ان کے براہ راست بات چیت کی تعداد یوں بھی بہت محدود رہی ہے، ان میں سے بہت سے مواقعوں پر وہ اہم سوالات کا جواب دینے کے بجائے یا تو انہیں گول مول گھماتے رہے ہیں یا پھر انٹرویو کو درمیان میں ہی چھوڑ کر ختم کرتے رہے ہیں۔

نریندر مودی کے ٹی وی انٹرویو کے حوالے سے ان کے میدان چھوڑ کر بھاگنے کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے ہم سب سے پہلے 2007ء کے دور میں چلتے ہیں۔

انگریزی نیوز چینل سی این این -آئی بی این کے پروگرام ’ڈیولز ایڈووکیٹ‘ کے لیے سینئر صحافی کرن تھاپر نے اس سال نریندر مودی کا انٹرویو کیا تھا۔ انٹرویو شروع ہونے کے کچھ ہی وقت بعد کرن تھاپر نے گجرات فسادات پر معافی مانگنے سے متعلق سوال مودی کے سامنے رکھ دیا ۔ اس سوال سے گھبرا کر مودی پہلے تو اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے، لیکن جب انہیں احساس ہوا کہ تھاپر اپنے سوال پرقائم ہیں تو پانی مانگنے کے بہانے مودی نے وہ انٹرویو درمیان میں ہی چھوڑ دیا تھا۔

وہ انٹرویو ساڑھے تین منٹ تک ہی ریکارڈ ہو پایا تھا ۔ اس بارے میں کرن تھاپر کا کہنا تھا کہ ساڑھے تین منٹ کی ریکارڈنگ کے بعد تقریباً گھنٹے بھر تک وہ مودی کو سمجھاتے رہے کہ انٹرویو مکمل نہیں ہونے کی صورت میں اسے ایک خبر کی طرح نیوز بلیٹن میں ہی دکھایا جاسکے گا ، لیکن اس کے باوجود مودی نے انٹرویو مکمل کرنے سے انکار کر دیا۔

اس کے بعد سی این این -آئی بی این نے اگلے دن تقریباً چالیس مرتبہ اپنے چینل پر اس ادھورے انٹرویو کو خبروں کے ذریعے نشر کیا۔

تب سے اب تک انٹرنیٹ پر اس ویڈیو کو لاکھوں بار دیکھا جا چکا ہے، جس سے مودی کی کافی رسوائی بھی ہوتی رہی ہے۔

اس بارے میں سینئر صحافی اوم تھانوی کہتے ہیں ’’گجرات کے فسادات کے ماضی سے پیچھا چھڑانے کی کوشش میں مصروف مودی کے سامنے جب یہ سوال بار بار آیا تو ان کا بے آرام دہ ہونا فطری تھا، کیونکہ ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اس کے بہت عرصے تک مودی ٹی وی پر آنے سے کتراتے رہے ہیں ۔‘‘

اس ضمن میں اس کے دو سال بعد کا ایک اور واقعہ کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ اپریل 2009ء میں ٹیلی ویژن چینل این ڈی ٹی وی کے لیے سینئر صحافی وجے ترویدی نے نریندر مودی کا انٹرویو کیا تھا۔ اس وقت لوک سبھا انتخابات کےدوران نریندر مودی گجرات میں طوفانی جلسے کر رہے تھے۔ ترویدی احمد آباد سے مودی کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں بیٹھے اور انہوں نے انٹرویو شروع کر دیا ۔

ایک نیوز ویب سائٹ کے ساتھ بات چیت میں وجے ترویدی کہتے ہیں ’’ابتدائی سوال جواب کے تقریباً پانچ چھ منٹ بعد جب انٹرویو کچھ سنگین سوالات کی طرف بڑھنے لگا تو مودی کچھ بے چین دکھائی دینےلگے۔ اس کے بعد جب میں نے گجرات فسادات کا ذکر چھیڑا تو مودی بری طرح پریشان ہو گئے اور بغیر کوئی جواب دیے انٹرویو روکنے کا اشارہ کرنے لگے ۔‘‘

اس واقعے کی ریکارڈنگ دیکھنے پر پتہ چلتا ہے کہ اس بار بھی مودی نے انٹرویو ختم کرنے کے لیے پانی مانگنے کا وہی پرانا حربہ آزمایا تھا۔ بقول وجے ترویدی کے’’انٹرویو بند ہونے کےدس پندرہ منٹ تک مودی اور میں آمنے سامنے بغیر ایک دوسرے کی طرف دیکھے چپ چاپ بیٹھے رہے ۔‘‘

اس طرح نریندر مودی نے دوسری بار کسی انٹرویو کو درمیان میں ہی ختم کردیا تھا۔

بتایا جاتا ہے کہ انٹرویو سے پہلے یہ طے کیا گیا تھا کہ ترویدی کو انٹرویو ختم ہونے کے بعد ہیلی کاپٹر سے ہی واپس چھوڑا جائے گا۔ لیکن ہیلی کاپٹر سے اترتے ہی نریندر مودی ان کی واپسی کے لیے ایک گاڑی کا بندوبست کرنے کا کہہ کر چلتے بنے۔ اس طرح دیکھا جائے تو مودی نے اس بار صرف انٹرویو کو ہی نہیں بلکہ انٹرویو لینے والے صحافی کو بھی لٹکا دیا تھا۔

میڈیا کے سامنے آکر مودی کے پریشان ہونے کا ایک اور واقعہ 2012ء میں بھی پیش آچکا ہے۔ یہ واقعہ سوامی وویکا نند کے 150 ویں یومِ ولادت پر گجرات حکومت کی طرف سے نکالی گئی ایک ریلی کے دوران رونما ہوا۔ سی این این -آئی بی این کے صحافی راجدیپ سرڈیسائی اس سفر کے دوران گجرات بھرکاسفر کررہے مودی کے ساتھ ان کے رتھ میں سوار تھے۔

انٹرویو کے آغاز میں سرڈیسائی نے ان سے لوک سبھا انتخابات اور گجرات ماڈل کے بارے میں بات چیت شروع کی ۔ راجدیپ کے سوالات کا جواب مودی بڑی روانی سے دے رہے تھے ۔

اس دوران راجدیپ نے سوالات کا اسٹیئرنگ گودھرا فسادات کی طرف موڑ دیا۔

دراصل سونیا گاندھی نے گجرات کی ایک انتخابی ریلی میں نریندر مودی کو ’’موت کا سوداگر ‘‘ کہا تھا۔

راجدیپ نے مودی سے اس بارے میں سوال کیا، لیکن کوئی بھی جواب دینے کے بجائے مودی نے پہلے تو خاموشی اختیار کر لی اور پھر رتھ سے اُتر کر عوام کے درمیان چلے گئے۔ اس کے بعد انٹرویو دوبارہ شروع ہوا تو اس کے آخر میں راجدیپ نے جب مودی سے گودھرا فسادات پر معافی مانگنے کے حوالے سے سوال پوچھا تو مودی ’’بہت بہت شکریہ‘‘ کہہ کر خاموش ہو گئے۔

ان واقعات کاموازنہ کیا جائے تو ایک بات واضح طور پر یہ سامنے آتی ہے کہ تینوں مواقعوں پر مودی گجرات فسادات کے سوال پر ہی بے چین ہوئے تھے، لیکن اب جب کہ ان فسادات کےحوالے سے وہ بہت سے معاملات میں کلین چٹ حاصل کر چکے ہیں، ایسے میں ٹی وی انٹرویو سے بچنے کی اور کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟

سینئر صحافی راجیو نین بہوگنا اسے مودی کی طرف سے حالیہ تقریروں میں کی گئی حقائق کی پردہ پوشی اور ترقی کے گجرات ماڈل پر تنقید سے جوڑتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’’مودی ان دنوں جس طرح کی غلط بیانیاں مسلسل اپنی انتخابی ریلیوں کے دوران کر رہے ہیں، انہیں دیکھتے ہوئے مودی کو ڈر ہے کہ ٹی وی انٹرویو یا عوام کی براہ راست شرکت والے پروگراموں میں ان سے ان کی غلط بیانیوں کے بارے میں سوالات کیے جا سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ گجرات کی ترقی ماڈل کے حوالے سے جو رپورٹیں حال ہی میں میڈیا کے ذریعے سامنے آئی ہیں ان پر بھی مودی کی زبان پر تالا لگ سکتا ہے۔

اس سے بات اتفاق کرتے ہوئے اوم تھانوی کہتے ہیں ’’گزشتہ دنوں عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کیجریوال نے گجرات جا کر نریندر مودی سے 16 سوالات کا جواب مانگا تھا جس کا نہ تو مودی اور نہ ہی ان کی پارٹی کوئی جواب دے پائی ہے۔ ایسے میں سمجھا جا سکتا ہے کہ میڈیا کے حوالے سے مودی کے دل میں کس طرح کا خوف بیٹھا ہوا ہے کیونکہ یہ تو واضح ہے کہ میڈیا کے سوال بھی کیجریوال کے سوالات جتنے سخت ہو سکتے ہیں۔‘‘

اوم تھانوی کا یہ تجزیہ بھی کافی حد تک درست معلوم ہوتا ہے۔ مودی کے گجرات ماڈل کے حوالے سے اب ان سے سوال پوچھے جانے لگے ہیں۔ کیجریوال کے علاوہ ممتا بنرجی بھی ان کے اس ماڈل پر حال ہی میں اسی ’کینڈیڈیٹس‘ کے پلیٹ فارم پر آ کر سوال کر چکی ہیں جس پلیٹ فارم پر مودی نے آنے سے انکار کر دیا تھا۔

حالانکہ نریندر مودی کے میڈیا سے منہ چراتے رہنے کے واقعات کے حوالے سے سینئر صحافی رشید قدوائی ایک دوسرا نظریہ بھی پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ہندوستان کے انتخابی عمل میں انتخاب لڑنے والے امیدواروں اور میڈیا کے درمیان سوال جواب کی نہ تو کوئی ذمہ داری ہے اور نہ ہی یہ امیدواروں کی قابلیت کا ایک پیمانہ ہے۔ کسی لیڈر کا میڈیا کے سامنے آکر اپنی بات کہنا یا نہ کہنا مکمل طور پر اس کی ذاتی خواہش پر انحصار کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ان انتخابات میں اپنے ووٹ بینک کو لے کر جس قدر نریندر مودی کافی خوش ہیں اسے دیکھتے ہوئے بھی وہ شاید یہ مان بیٹھے ہیں کہ میڈیا کے ساتھ سوال جواب کرنے یا نہ کرنے سے ان کی شخصیت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔

لیکن بالفرض اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ مودی اپنے حق میں عوامی حمایت کے طور پر میڈیا کے سوالوں سے لاپرواہ ہیں، تب بھی یہ سوال تو پیدا ہوتا ہی ہے کہ وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار کو اہم سوالات کا سامنا کرنا چاہئے یا نہیں؟

اس پر قدوائی خود کہتے ہیں ’’ٹی وی کیمرے کا سامنا کرنے یا نہ کرنے کے رضاکارانہ طور پر اختیارات کے باوجود یہ بات بھی اتنی ہی منطقی ہے کہ وزیر اعظم یا وزیر اعلٰی کے عہدے کے لیے نامزد امیدواروں کو عوام کے براہ راست سوالات کا جواب دینے کی روایت شروع کرنی چاہئے۔‘‘

ہندی سے ترجمہ.... تحریر: پردیب ستّی.... بشکریہ تہلکہ ڈاٹ کام....

تبصرے (0) بند ہیں