مشکل ابتدا

31 مارچ 2014
ٹی ٹی پی ۔ حکومت مذاکرات شروع قابل قبول سمجھوتے کی تلاش الگ ہی شے ہے۔  فائل فوٹو۔۔۔۔
ٹی ٹی پی ۔ حکومت مذاکرات شروع قابل قبول سمجھوتے کی تلاش الگ ہی شے ہے۔ فائل فوٹو۔۔۔۔

حکومت کی مذاکراتی ٹیم اور ٹی ٹی پی قیادت کے درمیان پہلا آمنا سامنا تناؤ سے بھرا اور مشکل تھا لیکن درون خانہ اطلاعات کا احتیاط سے تجزیہ کریں تو نظر آتا ہے کہ دونوں ہی فریقین اگلے مرحلے کے خدّ و خال تشکیل دینے کی تیاریوں میں ہیں۔

توقع کے عین مطابق ٹی ٹی پی نے دو کلیدی مطالبات پیش کیے: قیدیوں کی رہائی اور ایسے زون کا قیام، جہاں مذاکراتی عمل کے دوران ٹی ٹی پی بنا رکاوٹ نقل و حمل جاری رکھ سکے۔

قیدیوں کے محاذ پر، ٹی ٹی پی کی طرف سے کم از کم یہ تسلیم کیا گیا: شہباز تاثیر، حیدر گیلانی اور پشاور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اجمل خان کی رہائی کی ہدایت دینے کی پوزیشن میں ہیں۔

اگرچہ ٹی ٹی پی مبینہ طور پر پی پی پی سے منسلک شخصیات کی رہائی پر آمادہ نہیں، تاہم حکومت، مراعات اور ٹی ٹی پی پر دباؤ برقرار رکھ کر اسے پلٹنے پر ٹہوکا دے سکتی ہے: پی پی پی کے فرزندوں کی رہائی سے، ملک میں مذاکرات پر سیاسی لحاظ سے ہونے والی کڑی تنقید میں کچھ کمی آسکتی ہے۔

اس کے بعد، آنے والی راہ میں کئی مشکل موڑ ہیں، خاص طور پر ایسے میں کہ اب ٹی ٹی پی نے حکومت کو ان نام نہاد غیر عسکری افراد کی ایک فہرست تھمادی ہے، جو اُن کے مطابق، ریاستی تحویل میں ہیں۔

ہوسکتا ہے کہ رائے عامّہ تبدیل کرنے کے لیے ٹی ٹی پی دروغ گوئی سے کام لے رہی ہو لیکن اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ واقعی ریاست نے اپنا اثر برقرار رکھنے کے لیے، چاہے صرف چند بچوں، عورتوں اور بزرگوں کو ہی اپنی تحویل میں رکھا ہوا ہو، تو پھر عوامی ہمدردی کا جھکاؤ ٹی ٹی پی کی جانب ہوسکتا ہے۔

لہٰذا، بجائے اس کے کہ حکومت ٹی ٹی پی کے پیچھے جائے اور انہیں مبینہ قیدیوں کی تلاش پر حکومتی کوششوں سے آگاہ کرے، حکومت کو چاہیے کہ وہ اس فہرست کے ساتھ عوام میں جائے اور وضاحت دے کہ اس میں شامل کوئی بھی فرد ریاستی اداروں کی تحویل میں نہیں۔

اس کے علاوہ، ٹی ٹی پی کو مزید رعایتیں دینے کے معاملے پر بھی حکومت کو سختی سے سوچ و بچارکرنا ہوگا۔ مذاکراتی ٹیم کو ٹی ٹی پی کے اپنے میدان پر بھیج کر، حکومت پہلے ہی انہیں بنیادی طور پر ایک رعایت دے چکی ہے۔

ٹی ٹی پی کے اپنے میدان پر مذاکرات، کیا شرمندگی سے کچھ زیادہ ہے یا اُس دینے سے کچھ کم، جس کا ٹی ٹی پی مطالبہ کررہی ہے یعنی قبائلی علاقوں میں یا اس کے قریب آزادانہ نقل و حرکت کے لیے ایک علاقہ؟ یہ ایک مشکل سوال ہے اور ٹی ٹی پی نے بڑی چالاکی سے اسے یہ رخ دیا ہے کہ مذاکراتی عمل سے پہلے کی بات چیت کا حصہ کس طرح، کہاں پر منعقد ہو۔

اس کے بعد، طریقہ کار کیا ہوگا اور یہ کہ طویل المعیاد تناظر میں رعایتیں کیا کیا ہوں گی۔ اب تک تو حکومت کا کم ازکم اسی پر اصرار ہے کہ مذاکرات آئینی حدود کے اندر اور جمہوری روح کے مطابق کرنے کی ضرورت ہے لیکن کسی ایک حصے یا مجموعی طور پر طالبان کے ساتھ طویل المعیاد معاہدے کی شکل کیا ہوگی؟

بعد از معاہدہ، ٹی ٹی پی پاکستان کے اندر، اپنا کردار کس طرح کا دیکھتی ہے؟

اس پر بات کرنا مکمل طور پر ایک الگ شے ہے۔ قابل قبول سمجھوتے کی تلاش یکسر دوسری بات ہے۔

انگلش میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں