جذبۂ خیرسگالی کے تحت 19 طالبان رہا

اپ ڈیٹ 04 اپريل 2014
وزیراعظم ہاؤس اور وزارتِ داخلہ کے متضاد بیانات کے بعد بالآخر واضح کردیا گیا کہ رہا کیے جانے والے افراد غیر جنگجو ہیں۔ —. فائل فوٹو رائٹرز
وزیراعظم ہاؤس اور وزارتِ داخلہ کے متضاد بیانات کے بعد بالآخر واضح کردیا گیا کہ رہا کیے جانے والے افراد غیر جنگجو ہیں۔ —. فائل فوٹو رائٹرز

اسلام آباد: حکومت نے جمعرات کو اعلان کیا ہے کہ اس نے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ امن عمل کو تقویت پہنچانے کے لیے جذبۂ خیر سگالی کی بنیاد پر 19 غیر جنگجو طالبان رہا کردیے ہیں۔

لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ وزارت داخلہ کی جانب سے کیا جانے والا یہ دعویٰ وزیراعظم سیکریٹیریٹ کی طرف سے مسترد کردیا گیا تھا۔

وزیراعظم کے بیان میں کہا گیا تھا کہ ’’کچھ ایسے قیدی جو چھوٹے موٹے جرائم میں ملؤث تھے، سیاسی انتظامیہ کی جانب سے ان کی رہائی کو غلط طور پر طالبان قیدیوں کی رہائی سمجھ لیا گیا تھا۔‘‘

وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والا یہ بیان درحقیقت ایک بین الاقوامی خبررساں ادارے کے اس دعوے کا ردّعمل تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ان قیدیوں کو وزیراعظم کی منظوری کے ساتھ رہا کیا گیا ہے۔

اس مختصر بیان میں کہا گیا تھا کہ ’’یہ واضح کیا جاتا ہے کہ اس سلسلے میں وزیراعظم کی طرف سے کوئی منظوری نہیں دی گئی تھی۔‘‘

دوسری جانب وزارتِ داخلہ کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ جنوبی وزیرستان میں 2009ء میں آپریشن کے آغاز کے بعد پہلی مرتبہ لوگوں کے بڑے گروپ کو رہا کیا گیا ہے۔

وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ رہا کیے جانے والے قیدی محسود قبائل سے تعلق رکھنے والے غیرجنگجو طالبان تھے۔

تاہم وزیراعظم ہاؤس اور وزارتِ داخلہ کے متضاد بیانات سے پیدا ہونے والی الجھن جلد ہی ختم ہوگئی، جب اس انکار کے چند گھنٹوں کے بعد غیرجنگجوؤں کی رہائی کی تصدیق کردی گئی اور کہا گیا کہ یہ اقدام مقامی سطح پر وزارتِ داخلہ کی ہدایت پر اُٹھایا گیا ہے۔

ایک اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ یہ بوکھلاہٹ کچھ میڈیا رپورٹوں کا نتیجہ تھی، جس میں قیدیوں کی رہائی کو براہِ راست وزیراعظم کے آفس سے منسوب کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان ٹی ٹی پی کے ساتھ جاری مذاکرات میں مرکزی شخصیت تھے،لہٰذا یہ فیصلہ ان کی سطح پر لیا گیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ رہا کیے جانے والے افراد مقامی لوگ ہیں، جنہیں سیاسی انتظامیہ کی تفتیش کے بعد بے گناہ قرار دے دیا گیا تھا۔

مذکورہ اہلکار نے بتایا ’’اب وزارتِ داخلہ نے اس پیشرفت کی تفصیلات وزیراعظم کو فراہم کردی ہے، اور اب کسی بھی قسم کی الجھن کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔‘‘

بعد میں وزارت داخلہ نے رہا کیے جانے والے طالبان کے بارے میں کچھ معلومات بھی دیں، لیکن ان کے نام بیان نہیں کیے۔

بیان میں کہا گیا کہ ان میں سے تین کو اکیس مارچ، پانچ کو پچیس مارچ اور گیارہ کو اٹھائیس مارچ کو رہا کیا گیا تھا۔ ان لوگوں کو انٹیلی جنس رپورٹوں یا شک کی بنیاد پر گرفتار کیا تھا۔

وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے کہا کہ ’’حکومت اور مسلح افواج کی پالیسی ہے کہ جن کے بارے میں تفتیش کے نتیجے میں یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ وہ بے گناہ ہیں، انہیں رہا کیا جاتا ہے۔‘‘

اسی دوران اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان نے اس تصور کو مسترد کردیا کہ امن مذاکرات میں کوئی تعطل پیدا ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ جلد ہی طالبان کمیٹی سے ملاقات کریں گے۔ اس کے بعد ٹی ٹی پی شوریٰ کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کو آگے بڑھایا جائے گا۔

اس سے قبل ایک تھنک ٹینک ’سینٹر فار پالیسی ریسرچ اینڈائیلاگ‘کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ داخلہ نے امن مذاکرات کے بارے میں امید کا اظہار کرتے ہوئے کہاتھا کہ جلدہی اس عمل کا جائزہ لینے کے لیے ایک اجلاس منعقد کیا جائے گا۔

چوہدری نثار نے کہا کہ وہ پُرامید ہیں کہ حکومت کی جانب سے کی جانے والی کوششوں سے ملک کے اندر امن بحال ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد سابق حکمرانوں نے پاکستان پر ایک جنگ مسلط کردی تھی، جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جاری ہے۔

وزیرِ داخلہ نے افسوس کا اظہار کیا کہ ماضی میں ماضی میں مذاکرات کے ذریعے اس تصادم کو ختم کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں اب وہی حکومت پر تنقید کررہے ہیں۔

وزیرِ داخلہ نے کہا کہ یہ بات تسلیم کی جانی چاہیٔےکہ 2001ء سے 2004ء کے دوران قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی کوئی کارروائی نہیں جاری تھی۔ نہ ہی کوئی پاکستانی شہری نائن الیون کے واقعہ میں ملؤث تھا۔

پشاور بیورو:

ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ رہا کیے جانے والے افراد میں سے زیادہ تر وہ لوگ تھے جنہیں سرچ آپریشن کے دوران پکڑا گیا تھا، اور بعد میں بے گناہ قرار دے دیا گیا تھا۔

ان میں سے کچھ خان سعید عرف سجنا کے گروپ سے تعلق رکھتے ہیں، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے سیکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ رابطہ ہے اور اس سے قبل اس کی کوشش تھی کہ ٹی ٹی پی کے مرکزی گروپ کو امن مذاکرات کے ذریعے ایک امن معاہدے تک پہنچنے سے روکا جائے۔

یہ بات واضح ہے کہ حکومت نے سوچ سمجھ کر سجنا گروپ کو خوش کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے نمائندے اعظم طارق حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے والی عسکریت پسندوں کی ٹیم کا حصہ ہیں۔

تاہم ایک عسکریت پسند کمانڈر نے میرانشاہ میں ہمارے نمائندے کو بتایا کہ رہا کیے جانے والے افراد کا ٹی ٹی پی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ لوگ وانا میں موجود مولوی نذیر گروپ سے تعلق رکھتے ہیں، جس کا حکومت کے ساتھ پہلے ایک امن معاہدہ ہوچکا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں