پاکستان طالبان کے محاصرے میں

شائع April 8, 2014
طالبان کو خوش کرنے کی حکومتی پالیسی نے ملک کو صوبائی، نسلی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کردیا ہے-
طالبان کو خوش کرنے کی حکومتی پالیسی نے ملک کو صوبائی، نسلی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کردیا ہے-

ستمبر 1938ء میں برطانوی وزیراعظم نویل چیمبرلین نے میونخ معاہدہ پر دستخط کرنے کے بعد اپنی لندن واپسی کے موقع پر ایک پرمسرت مجمع سے کہا تھا، ''مجھے یقین ہے کہ ہم نے امن حاصل کرلیا ہے". وہ "امن" جسے چیمبرلین نے حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا اس کا مطلب چیکوسلواکیہ کو ایک پلیٹ میں رکھ کر ہٹلر کے حوالے کردینا تھا-

چیمبرلین کی اس خوشامدانہ پالیسی سے امن نہیں حاصل ہوا بلکہ اس نے پوری دنیا کو جنگ کی بھیانک آگ میں جھونک دیا-

ہمارے پاس بھی میونخ سے ملتے جلتے لمحات ہیں، جب بھی ریاست کو للکارنے والے تشدد پسندوں سے جنگ میں واسطہ پڑا ہے- لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم تاریخ سے سبق سیکھنے سے انکار کرتے ہیں- یاد ہے چند سال پہلے سوات میں کیا ہوا تھا؟ 2008 میں ایک امن معاہدے کے تحت تمام تشدد پسند کمانڈروں کو رہا کردیا گیا جو فوجی آپریشن کے دوران گرفتار کئے گئے تھے-

وہ اپنے علاقوں میں واپس چلے گئے اور اپنے مخالفین کو بےدردی سے قتل کردیا- وہ پورا علاقہ ملا فضل اللہ کے وحشیانہ دور حکومت کا حصہ تھا- اس کے باوجود، ہمارے قائدین اس امن کے دھوکہ کو دوسرا موقع دینے سے باز نہ آئے- اور 2009ء میں ایک اور امن معاہدہ کے ذریعہ ان کو آس پاس کے تمام علاقوں میں مزید پیش قدمی کا موقع دیا-

لیکن ہمیں تو اپنی غلطیوں کو دہرانے کی عادت ہے- لہٰذا ایک بار پھر ہم انہیں نام نہاد امن مذاکرات میں انہیں دہشت گردوں کے ساتھ مصروف عمل ہیں جو اس خوں ریزی کے ذمہ دار تھے جس کے نتیجے میں ہزاروں جانیں تلف ہوئیں-

پچھلے ہفتے حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے بیچ براہ راست مذاکرات کے پہلے راؤنڈ کی تفصیلات کا انکشاف میڈیا پر اس طرح ہوا جیسے کہ کوئی مزاحیہ ڈراما ہو- قبائلی علاقہ میں ٹی ٹی پی کے ایک دور افتادہ مقام پر منعقد کئے گئے یہ مذاکرات دراصل طالبان کے دل کی بھڑاس نکالنے کا ایک بہانہ تھے اپنے "قابل احترام استاد" مولانا سمیع الحق کی معیت میں-

لیکن ان کے سخت رویہ میں کسی طرح کی لچک کا کوئی شائبہ نہیں تھا- بات بظاہر ایک جگہ پر آکر رک سی گئی جب کہ طالبان نے پاکستان کی سیکیورٹی افواج کی قید میں 300 سے 400 افراد، جن میں زیادہ ترسخت گیر قسم کے دہشت گرد/ تشدد پسند شامل ہیں، کی رہائی کے ساتھ ساتھ، جنوبی وزیرستان سے فوجوں کے انخلا کا مطالبہ بھی کیا-

اگر مذاکرات تعطل کا شکار بھی ہوجاتے ہیں، تو بھی طالبان نے اپنے کچھ مقاصد تو حاصل کرہی لئے ہیں- شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کردی گئی ہے اور ملک کے دوسرے حصوں میں بھی ان کے نیٹ ورک کے خلاف ہر قسم کی کارروائی روک دی گئی ہے-

میڈیا کی کچھ رپورٹیں انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ جنگ بندی کی آڑ میں دراصل طالبان نے اپنا اسلحہ اور اپنے جنگجوؤں کو شمالی وزیرستان سے ہٹاکر محفوظ مقام پر منتقل کردیا ہے-

فوج نے اس سال کے شروع میں تشدد پسندوں کے کیمپوں اور اسلحہ خانوں کو تباہ کرکے جو فائدے حاصل کئے تھے اس صلح نامے کے بعد وہ سب کھودیا ہے-

ٹی ٹی پی کی سب سے بڑی فتح یہ ہے کہ حکومت کے ساتھ براہ راست بات چیت نے ان کی سرگرمیوں کو قانونی جواز دے دیا ہے- دہشت گردی کا بنیادی ڈھانچہ برقرار رہنے کی وجہ سے امن کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا- ایک قانونی جواز کے ساتھ ایک مزید طاقتور ٹی ٹی پی ایک کمزور ریاست کیلئے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتی ہے اور دہشت گردی کے نیٹ ورک کو اپنے زوال پزیر نظریوں کو بزور طاقت پھیلانے اور نافذ کرنے میں معاون ثابت ہوگی-

پچھلے مہینے مذاکرات کے دوران اسلام آباد عدالت پر حملے نے ان کے ارادوں کو صاف صاف ظاہر کردیا ہے- اگرچہ کہ نیٹ ورک نے اس کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا ہے، لیکن انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے جو رپورٹیں ملی ہیں ان سے یہ تصدیق ہوتی ہے کہ اس حملہ کا حکم ملا فضل اللہ نے دیا تھا-

ایسا لگتا ہے کہ اس حملہ کا مقصد مذاکرات شروع ہونے سے پہلے حکومت کو دباؤ میں لانا تھا- لیکن سب سے زیادہ حیران کن بات، بہرحال، وزیرداخلہ کا رویہ تھا، جس سے انہوں نے ٹی ٹی پی کی اس حملے سے مکمل لاتعلقی ثابت کرنے کی کوشش کی-

اگر دونوں جانبین میں کسی قسم کا معاہدہ ہو بھی جاتا ہے، تو دہشت گرد تشدد کا راستہ نہیں چھوڑیں گے- ڈر کی بات یہ ہے کہ بڑے پیمانے کی قتل و غارت گری کی بجائے یہ دہشت گرد اپنے مخالفین اور نقادوں کو نشانہ بنانا شروع کرسکتے ہیں-

صحافی رضا رومی پر حملہ جس میں ان کا ڈرائیور مارا گیا آئندہ ہونے والے واقعات کا محض ایک ٹریلر ہے-

جو بات سب سے زیادہ پریشان کن ہے، وہ بہرحال، یہ ہے کہ حکومت کی انہیں خوش کرنے کی پالیسی نے ملک کو صوبائی، نسلی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کردیا ہے- طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں تمام جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے جس کا اتنا شور تھا وہ اب ٹوٹ چکا ہے-

بہت ساری سیاسی جماعتیں آل پارٹی کانفرنس کے ریزولوشن سے اعلانیہ اپنے آپ کو لاتعلق کرنا شاید پسند نہ کریں، لیکن انہیں بہت کم امید ہے کہ مذاکرات ملک میں امن لاسکیں گے- جہاں سندھ کی ساری سیاسی جماعتیں ایک سخت موقف کی حامی ہیں، پنجاب کی پارٹیوں نے تشدد پسندی کی جانب مفاہمانہ رویہ اپنایا ہوا ہے-

عسکریت پسند نہایت چالاکی سے اس تقسیم کا فائدہ اٹھاکر صرف ان سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنارہے ہیں جو ان کی سرگرمی سے مخالفت کر رہے ہیں- ٹی ٹی پی نے مرحوم گورنر سلمان تاثیر اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں کو رہا کرنے سے انکار کردیا ہے کیونکہ پی پی پی کی حکومت سندھ میں ان کے خلاف کریک ڈاؤن میں مصروف ہے-

ٹی ٹی پی کو جائز قرار دینے سے، درحقیقت نہ صرف اقلیتی فرقوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا ہے بلکہ اکثریتی سُنّی فرقہ کی پریشانی میں بھی اضافہ ہوا ہے جو زیادہ روادار اور متحمل اسلام میں یقین رکھتے ہیں اور کوئی بھی معاہدہ جو ٹی ٹی پی کی شرطوں پر ہوگا وہ ملک کو خانہ جنگی کے خطرے میں ڈال کر اس کے سماجی تاروپود کو بکھیر دے گا-

ہر سال 30 اپریل کو فوج اپنے شہیدوں کا دن مناتی ہے اپنے سپاہیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے جنہوں نے تشدد پسندوں سے لڑتے ہوئے اپنی جانیں قربان کردیں- ان کے پس ماندگان کی تعداد ہر سال بڑھ جاتی ہے، مرنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے جو اگلی صفوں میں شہید ہوتے ہیں-

نئے فوجی سربراہ دہشت گردوں کے شکار جوانوں کے خاندانوں کا سامنا کیونکر کریں گے جنکے سامنے ریاست ہتھیار ڈالنے جا رہی ہے؟ یہ امن تو نہیں ہے، بلکہ ملک کی تباہی ہے جس کا سودا ہمارے قائدین کرنے جارہے ہیں-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: علی مظفر جعفری

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 10 جولائی 2025
کارٹون : 9 جولائی 2025