اسلام آباد: پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کو بتایا گیا کہ گزشتہ سات سالوں کے دوران ملک میں فرقہ وارانہ حملوں میں دو ہزار نوّے افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

گزشتہ روز بدھ کو سینیٹ اجلاس کے دوران سینیٹر صغریٰ امام، سینیٹر عبدالرؤف، سینیٹر سید مظفر حسین شاہ، سینیٹر الیاس بلور اور سینیٹر سید طاہر حسین مشہدی کے سوالات کے جواب میں وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمن نے ایوان کو بتایا کہ فرقہ وارانہ ہلاکتوں کے بہت سے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کے لیے پراسیکیوشن کو مضبوط بنایا جارہا ہے، تحفظ پاکستان آرڈیننس میں بھی ترامیم کی گئی ہیں، ججوں اور گواہوں کے تحفظ کو بھی یقینی بنا کر امن و امان کی صورتحال بہتر بنائی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ 2008ء سے 2014ء کے دوران فرقہ وارانہ ہلاکتوں میں پنجاب کے اندر ایک سو چار، سندھ میں 252، خیبرپختونخوا میں بائیس، بلوچستان میں سات سو سنتیس، فاٹا میں 867، گلگت بلتستان میں ایک سو تین اور اسلام آباد میں پانچ افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جبکہ مجموعی طور پر فرقہ وارانہ ہلاکتوں کی تعداد دو ہزار نوّے ہے۔

اس عرصے 173 ملزمان کو سزائیں بھی سنائی گئی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سندھ میں فرقہ وارانہ ہلاکتوں کی تعداد 252 ہے لیکن کسی ایک بھی مجرم کو سزا نہ ہونا واقعی تشویش کی بات ہے۔

تاہم وقفہِ سوالات کے دوران سینیٹ میں اپوزیشن اراکین نے وزیرِ داخلہ کی جانب سے اس اعداد و شمار کو مسترد کردیا۔

اس موقع پر عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء حاجی عدیل کا کہنا تھا کہ یہ اعداد و شمار درست نہیں ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ سات سالوں میں صوبہ خیبر پختونخوا میں صرف 22 افراد ہلاک ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ وہ متعدد ایسے واقعات کی مثال دے سکتے ہیں جو اس عرصے میں پیش آئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

S N Hussaini Apr 25, 2014 06:18am
یہ بلکل غلط ہے، جبکہ 2008 سے 2010 تک صرف کرم ایجنسی میں صرف طوری قبائل کے 1800 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ جبکہ اورکزئی اور ٹانک کو شامل کرکے شیعوں کی تعداد 2000 سے بڑھ جاتی ہے۔ باقی فاٹا اور پاکستان کو ملا کر تعداد کتنی ہوگی۔ ایس این حسینی پاراچنار